ممبئی: کورونا نے انڈیا کے امیر ترین شہر میں کیسے تباہی مچائی؟

انڈیا میں موجود کورونا کے مصدقہ متاثرین کا پانچواں حصہ، یعنی 31 ہزار سے زائد متاثرین، ملک کے سب سے امیر شہر ممبئی میں بستا ہے جبکہ اس وبا کے باعث ہونے والی ایک چوتھائی ہلاکتیں بھی اسی شہر میں ہوئی ہیں۔

بی بی سی ہندی کی یوگیتا لیمائے نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انڈیا کا معاشی دارالحکومت اس وبا سے اتنی بُری طرح متاثر کیوں ہوا ہے۔

ممبئی کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ اس شہر میں گہما گہمی ہر وقت عروج پر رہتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک روایتی سا فقرہ لگتا ہے لیکن چونکہ میں نے اس شہر میں اپنی زندگی کا بیشتر عرصہ بسر کیا ہے اس لیے میں تصدیق کر سکتی ہوں کہ یہ بات سچ ہے۔

یہاں تک کہ سنہ 2008 کے ممبئی حملے کے دوران بھی حملہ آور شہر کے جنوبی علاقے میں اپنی کارروائی کر رہے تھے جبکہ شہر باقی حصوں میں ٹرینیں معمول کے مطابق چل رہی تھیں، لاکھوں افراد اپنی اپنی ملازمتوں کی جانب رواں دواں تھے اور ریستوران اور دفاتر کھلے ہوئے تھے۔

لیکن کووِڈ 19 کے بعد شروع ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس شہر میں بھی ہُو کا عالم ہے۔

ابھی تک اس لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں کے نرم ہونے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔

شہر میں واقع کنگ ایڈورڈ میموریل (کے ای ایم) ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ’گذشتہ شب چھ گھنٹوں کے دوران میں نے 15 سے 18 افراد کو اپنی آنکھوں کے سامنے کورونا سے ہلاک ہوتے دیکھا۔‘ کنگ ایڈورڈ شہر کے ان چند سرکاری ہسپتالوں میں سے جہاں کورونا کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔

یہ ڈاکٹر بوجوہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

انھوں نے بتایا کہ ’یہ ایک میدانِ جنگ ہے۔ یہاں دو سے تین مریض ایک، ایک بستر پر لیٹے ہوئے ہیں، کچھ تو فرش پر بھی پڑے ہوئے ہیں، کچھ برآمدوں میں ہیں۔ ہمارے پاس مطلوبہ مقدار میں آکسیجن سلینڈر نہیں ہیں، بہت سے مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت ہے مگر ہم انھیں یہ فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔‘

ایک اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ہسپتال، سیان ہسپتال، کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ایک آکسیجن یونٹ سے دو سے تین مریضوں کو آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔ مریضوں کے بستروں کے درمیان جو اضافی جگہ رکھی جاتی ہے اسے مختصر کر دیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بستر ایک وارڈ میں لگائے جا سکیں۔

انھوں نے مزید کہا وہ جگہیں جہاں ڈاکٹر پی پی ایز یعنی حفاظتی کپڑے پہنتے اور اتارتے ہیں وہاں حفظان صحت کا مناسب انتظام نہیں ہے۔

ممبئی کے گرم مرطوب موسم میں ڈاکٹر ان حفاظتی کپڑوں کو پہننے کے چند منٹوں بعد ہی میں پسینے میں شرابور ہو جاتے ہیں۔

سیان ہسپتال اور کے ای ایم ہسپتال میں بنائی گئی ویڈیوز ظاہر کرتی ہیں کہ کورونا مریضوں کا علاج وہیں کیا جا رہا ہے جہاں اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی میتتیں پڑی ہیں اور ہسپتالوں کے وارڈز مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کو لے کر خوب واویلا ہو رہا ہے۔

ممبئی میں صحت عامہ کی ماہر ڈاکٹر سواتی رانی کہتی ہیں کہ ’ممبئی میں صحت کی بہترین سہولیات اور ڈاکٹرز موجود ہیں۔ لیکن یہ (شہر) وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ حسین خوابوں کا شہر اب ڈراؤنے خوابوں کا آمجگاہ بن چکا ہے۔‘

ممبئی کی زندگی کبھی نہیں رُکی، لیکن کورونا وائرس نے اس پر جمود طاری کر دیا ہے۔

انڈیا کی اقتصادی ترقی کا انجن کہلانے والے اس شہر، جو بحیرہ عرب میں گھرے کئی چھوٹے چھوٹے جزیروں پرمشتمل ہے، میں ملک بھر سے لاکھوں افراد روزگار اور بہتر مواقع کی تلاش میں آتے ہیں۔

اس شہر کے کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے میں ناکامی کا ایک سبب اس شہر کا گنجان آباد ہونا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق گنجائش کے لحاظ سے فی کس آبادی کی بات کی جائے تو یہ ڈھاکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔

اسی ہسپتال کے ایک اور ڈاکٹر نے بتایا کہ ’ویڈیوزمیں دکھائی جانے والی صورتحال کافی برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ لوگوں کو صحت عامہ کی سہولیات کے اس حد تک ناقص ہونے احساس اس وبائی مرض کی وجہ سے ہوا ہے۔‘

حکومت کی ایک اپنی رپورٹ کے مطابق ممبئی شہر میں 70 سرکاری ہسپتال ہیں جن میں 20 ہزار 700 مریضوں کے علاج کی گنجائش ہے۔ اس کےعلاوہ نجی شعبے کے 1500 ہسپتال موجود ہیں جن کے پاس 20 ہزار بستروں کی گنجائش ہے۔ اس شہر میں اندازاً ہر تین ہزار افراد کے لیے ہسپتال میں اوسطاً ایک بستر کی سہولت موجود ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 550 افراد کے لیے ہسپتال کے ایک بستر کی سہولت ہونی چاہیے۔

فی کس آبادی کو دستیاب صحت سہولیات کے یہ اندازے دس برس قبل لگائے گئے تھے اور اس دورانیے میں شہر کی آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے لیکن صحت عامہ کی سہولیات ویسے کی ویسے ہیں۔

سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے لیے کسی چیلینج سے نمٹنا بہت مشکل ہو چکا ہے، خاص کر کورونا وائرس کے بعد تو حالات اور بھی خراب ہو گئے ہیں کیونکہ اب انھیں اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈاکٹر رانی کہتی ہیں کہ ’موجودہ چیلینج کا سارا وزن پہلے سے مفلوج سرکاری ہسپتالوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ نجی شعبے کے ہسپتال مریضوں کا علاج نہیں کر رہے، چند ایک نجی ہسپتالوں میں تھوڑے سے بستروں کو کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے مختص کیا گیا ہے۔‘

ممبئی ریاست مہاراشٹر کا دارالحکومت ہے۔

گذشتہ ہفتے مہاراشٹر کی حکومت نے نجی ہسپتالوں کو اپنے 80 فیصد وسائل کووِڈ 19 سے متاثرہ افراد کے علاج کے لیے مختص کرنے اور علاج کی قیمت بھی کم کرنے کو کہا تھا۔

مہاراشٹر میں نجی طور پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تنظیم انڈین میڈیکل ایسویسی ایشن کے صدر ڈاکٹر اویناش بھونڈوے کے مطابق ’شروع شروع میں اس وائرس کی نوعیت کی وجہ سے کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ اب نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے تقریباً تین ہزار ڈاکٹروں نے اس کام میں مدد کرنے کی حامی بھر لی ہے۔ لیکن ہمیں کم قیمت پر معیاری حفاظتی سامان کی ضرورت ہے، جو کہ ابھی تک ہمیں فراہم نہیں کیا گیا۔‘

نجی شعبے کے ان ڈاکٹروں نے ابھی تک کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کا علاج شروع نہیں کیا اس لیے ممبئی میں سرکاری ہسپتالوں پر دباؤ میں کمی نہیں آئی ہے۔

سیان ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ’اس وقت مدد کی فوری ضرورت ہے۔ ہم کسی بھی دن چھٹی لیے بغیر یا اپنے آپ کو قرنطینہ میں ڈالے بغیر کام کر رہے ہیں۔‘

شہر کے کچھ حصوں میں عارضی ہسپتال تعمیر کیے گئے ہیں جن میں چار ہزار مریضوں کو رکھنے کی گنجائش ہے اور انٹرنیٹ پر یہ تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں کہ شہر کے کس ہسپتال میں مریضوں کی کتنی گنجائش باقی ہے۔

لیکن کئی خاندانوں کے لیے یہ پیش رفت انتہائی سست رفتار ثابت ہوئی ہے۔

نتھیا گنیش پِلائی کہتے ہیں کہ جب انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے والد کی سانس پھول رہی ہے تو وہ انھیں ایک بڑے ہسپتال سمیت آٹھ کے قریب نجی ہسپتالوں میں لے لے کر پھرے، لیکن ان تمام ہسپتالوں نے انھیں گھر واپس جانے کو کہا۔ بالآخر وہ اپنے والد کو سیان ہسپتال لے کر آئے۔

نتھیا گنیش نے کہا کہ وہاں ایک ہی سٹریچر تھی جس پر خون کے دھبے لگے تھے۔ میں نے کسی طرح ایک ویل چیئر تلاش کی اور اپنے والد کو ہسپتال کے اندر لے گیا۔ انھوں نے مجھے بتایا انھیں (اس کے والد) انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہاں تمام بستر پہلے ہی سے بھرے ہوئے تھے۔ جتنی دیر میں ایک ڈاکٹر نے میرے والد کو آ کر چیک کیا، اتنی دیر میں مجھے بتایا گیا کہ وہ مرنے کے قریب ہیں۔‘

چند گھنٹوں کے بعد 62 سالہ سِلوا راج پِلائی انتقال کر گئے۔

ان کے ٹیسٹ کے نتائج ان کے مرنے کے بعد آئے جن میں ان کے کووِڈ 19 میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی۔

نتھیا گنیش کی والدہ اس وقت قرنطینہ میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ کورونا وائرس کی خبریں دیکھتا تھا۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس سے میں یا میرے خاندان کا کوئی فرد متاثر ہو گا۔ ہم متوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے پاس دولت ہو سکتی ہے لیکن یہ آپ کے پیاروں کی زندگی نہیں بچا سکتی۔‘

اور دھراوی جیسی ممبئی کی کچی بستیوں میں زندگی اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ یہاں صرف ایک مربع میل میں تقریباً دس لاکھ افراد بستے ہیں جو کہ نیو یارک کے مین ہیٹن کی آبادی کی گنجائش کے لحاظ سے دس گنا زیادہ ہے۔

دھراوی کے ایک رہائیشی محمد رمضان پوچھتے ہیں کہ ’پچاس افراد ایک غسل خانہ استعمال کرتے ہیں، دس سے بارہ افراد ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتے ہیں، یہ لوگ سماجی فاصلہ کس طرح رکھ سکتے ہیں۔‘

محمد رمضان ایک فلاحی تنظیم کے کارکن ہیں۔ ان کی تنظیم ان لوگوں میں خوراک تقسیم کرتی ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنی ملازمتیں چھوڑ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے کبھی بھی اتنا کام نہیں کیا۔ میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اتنا تھکا ہوا محسوس نہیں کیا ہے۔ اب ہمیں خوراک کی تقسیم کرنے کا کام روکنا پڑ رہا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس فنڈز ختم ہو چکے ہیں۔ ہم کب تک یہ کام کر سکتے ہیں؟‘

ذاتی طور لاک ڈاؤن سے پہلے کے زمانے میں میری آنکھ گھر کے باہر صبح سویرے گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں سے کھلتی تھی اور میں اپنے دفتر تک پہنچنے کے پہلے ایک، دو درجن لوگوں سے مل لیتی تھی۔

یہ خِالی پن بے شک خوبصورت ہے۔ ہر دن ہم صاف شفاف نیلا آسمان دیکھتے ہیں اور شہر کے ساحلی علاقے میں بگلوں کی آوازیں سنائی دیتی ہے۔

لیکن اس شہر کے بند ہو جانے کی اقتصادی قیمت دل دہلا دینے والی ہے۔

ان نقصانات کا تخمینہ اربوں ڈالروں میں لگایا جا رہا ہے۔ اور بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کے واقعات کی وجہ سے نظر یہ آ رہا ہے کہ فی الحال اس کا کوئی انجام ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

ڈاکٹر راؤل غولے، جو مقامی حکومت کے حکام کے ساتھ مل کر گھر گھر جا کر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’ہم نئے نئے ہستالوں کی تعمیر جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی دن میں بھر جائیں گے۔ جب تک ہم اس وائرس کے پھیلنے کی وجہ معلوم نہیں کر لیتے ہیں اور اسے روک نہیں لیتے ہیں، اس وقت تک شہر کو لاک ڈاؤن میں رکھنا پڑے گا جس میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔‘

ممبئی کی مقامی حکومت کے کمشنر اقبال چہل کہتے ہیں کہ انھوں نے ’چیز دی وائرس‘ (وائرس کا پیچھا کرو) کے عنوان سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ ’کچی بستیوں میں ہم کووِڈ 19 وائرس سے شدید متاثرہ 15 افراد تک کو ہی قرنطینہ میں رکھیں گے۔ اب تک ہم نے ممبئی میں تقریباً 42 لاکھ افراد کے سکریننگ ممکل کر لی ہے۔'

لیکن ایک اور خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔

مون سون کا موسم جلد ہی شروع ہونے والا ہے اور اس کے آنے کے ساتھ ہی ملیریا، ٹائیفائیڈ، پیٹ کے امراض کی متعدی بیماریاں اور جانوروں سے انسانوں کو لگنے والی بیماری ’لیپٹوس پیروسس‘ کے تیزی سے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔