دھاراوی، ممبئی: دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کو کورونا سے بچانے کی کوشش

Dharavi

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشندھاراوی میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ لوگ آباد ہیں
    • مصنف, سوتک بسواس
    • عہدہ, بی بی سی نیوز

انڈیا کے مغربی شہر ممبئی کی پرپیچ گلیوں والی کچی آبادی (سلم یا جھونپڑپٹی) میں رہنے والے ایک 56 سالہ شخص 23 مارچ کو ایک ڈاکٹر سے ملنے پہنچے۔ انھیں بخار تھا اور شدید کھانسی تھی۔

کپڑوں کے یہ تاجر دھاراوی میں رہتے تھے جہاں ڈھائی مربع کلومیٹر کے گندے رقبے میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں (خیال کریں کہ مانچسٹر سے بھی بڑی آبادی ہائڈ پارک اور کینسنگٹن گارڈن سے بھی چھوٹے علاقے میں آباد ہو)۔ یہ کچی آبادی آسکر انعام جیتنے والی ہالی وڈ فلم 'سلم ڈاگ ملنیئر' کے لیے تحیریک تھی اور دنیا بھر کے شہر کے پلانرز نے اس کی پھلتی پھولتی معیشت اور سماج کے بارے میں مطالعہ کیا ہے۔

مقامی ڈ اکٹر نے مریض کا معائنہ کیا اور انھیں کھانسی کی دوا اور بخار کے لیے پیراسیٹامول تجویز کی۔ تین دنوں بعد اس شخص کو ان کے گھر کے پاس قائم سائن ہسپتال میں لے جایا گیا۔ ان کا بخار بڑھ چکا تھا اور ان کی کھانسی بدتر ہو چکی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے حال میں کہیں کا سفر نہیں کیا ہے، اس لیے ڈاکٹر نے مزید کھانسی کی دوا دے دی اور انھیں ایک بار پھر گھر بھیج دیا۔

29 مارچ کو اس شخص کو ایک بار پھر ہسپتال لایا گیا اور اس بار انھیں سانس لینے میں تکلیف تھی۔ ڈاکٹر نے انھیں ہسپتال میں داخل کر لیا اور ان کے تھوک اور لعاب یا بلغم کو فوری طور پر کووڈ-19 کی جانچ کے لیے بھیجا گیا۔

تین دنوں کے بعد نتیجے میں کورونا وائرس پازیٹو آيا۔ ان کی حالت تیزی سے خراب ہونے لگی اور ڈاکٹر نے انھیں اس بڑے ہسپتال میں منتقل کرنے کی کوشش کی جہاں کووڈ-19 کے مریضوں کا علاج ہو رہا تھا۔

اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اسی شام ان کا انتقال ہو گیا۔

سشد
سشد

کپڑے کے تاجر دھاراوی کے پہلا کورونا کے مصدقہ مریض تھے۔ اس گردن تک بھری کچی آبادی والے علاقے میں لوگوں کو دست سے لے کر ملیریا تک ہر وہ بیماری ہے جو ممبئی میں پائی جاتی ہے اور ممبئی دنیا کے سب سے زیادہ گھنی آبادی والے شہروں میں سے ایک ہے۔

لیکن ایک ایسی جگہ جہاں سماجی دوری قائم رکھنا اجتماع الضدین ہو وہاں کورونا وائرس کے پھیلنے سے عوامی صحت کی ہنگامی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے اور شہر کا جو سرکاری صحت کا نظام پہلے سے ہی دباؤ کا شکار ہے وہ مزید دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔

اس بات کو ان حکام سے زیادہ کوئی نہیں جانتا جو اس انفیکشن کی نشاندہی کرنے اور انھیں قابو کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دھاراوی میں رہنے والا کورونا کا پہلا مریض آٹھ ارکان پر مشتمل اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا جس میں ان کی اہلیہ کے علاوہ چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ وہ سب 420 مربع میٹر کے ایک کمرے والے گھر میں رہتے ہیں جن کی چھتیں نیچی ہیں اور ان کے گرد چھونپڑیاں ہیں۔

اس علاقے کے نائب میونسپل کمیشنر کرن دیگھاوکر نے مجھے بتایا: 'جب ہم نے ان کے گھر والوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ان کے سفر کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور وہ صرف مقامی مسجد تک جاتے تھے۔'

لیکن یہاں کہانی میں ایک موڑ ہے۔

اس شخص کے پاس اسی عمارت میں ایک اور اپارٹمنٹ ہے۔ وہاں انھوں نے پانچ افراد کو ٹھہرایا تھا جو کہ مبینہ طور پر دہلی سے مارچ کے شروع میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کے بعد واپس آئے تھے۔ تبلیغی جماعت کے ماننے والے انڈونیشیا، ملیشیا اور امریکہ سمیت دنیا کے آٹھ مختلف ممالک میں ہیں۔

Dharavi lockdown

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشندھاراوی میں 24 مارچ سے لاک ڈاؤن جاری ہے

جن سینکڑوں افراد نے تبلیغی اجتماع میں شرکت کی وہ کووڈ-19 کے بہت سے جھنڈ کو ملک کے مختلف حصوں میں لے گئے اور اب 14 ریاستوں میں 650 کیسز سے ان کا تعلق بتایا جاتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دھاراوی میں دو دنوں تک رکنے والے پانچ افراد 19 سے 21 مارچ کے درمیان کیرالہ چلے گئے۔ دگھاوکر نے کہا: 'ہم ان لوگوں کا سراغ لگا رہے ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ 'ہمیں انفیکشن کے ذرائع کا پتہ چلانا ہے کہ اس شخص کو کس طرح اور کس سے انفیکشن ہوا؟ اور ہمیں جارحانہ اقدام اٹھاتے ہوئے اس انفیکشن کو پھیلنے سے روکنا ہے۔'

مرنے والے کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا جس کے بارے میں پولیس کو شبہ ہے۔ اس لیے وہ ان کے موبائل فون کے ریکارڈز کو کھنگال رہے ہیں تاکہ ان کی نقل و حرکت کے بارے میں پتہ چلایا جائے۔

ابھی تو یہ تگ و دو جاری ہے کہ کس طرح اس وبا کو پھیلنے سے روکا جائے۔ اس لیے فی الحال 308 اپارٹمنٹس، چھ منزلہ عمارت کی 80 دکانیں جہاں وہ تاجر رہتے تھے کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے۔ تقریبا ڈھائی ہزار مکینوں کو ان کے ہی گھروں میں قرنطینہ میں رکھ دیا گیا ہے۔

ان کے لیے کھانے اور راشن فراہم کیے جا رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں نے گھریلو بلیچ سے اپارٹمنٹ کو پاک کیا ہے۔ اس عمارت میں رہنے والے 'ہائی رسک' آٹھ آفراد کے تھوک اور بلغم کو جانچ کے لیے بھیجا گیا۔ ان میں مرنے والے کے گھر کے افراد اور ایک قریبی شناسا شامل ہیں۔

60 سال کی عمر سے زیادہ کے 130 افراد کے ساتھ 35 ایسے افراد پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے جنھیں سانس کی تکلیف ہے۔

dharavi affected building
،تصویر کا کیپشنتقریباً 25 ہزار سے زائد افراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے

وبا کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر حکام نے 50 بستر پر مشتمل سائن ہسپتال کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور تیزی کے ساتھ 300 بستر پر مشتمل ایک قرنطینہ مرکز پاس ہی کے سپورٹس کمپلیکس میں تیار کیا گیا ہے۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں اور نرسز کو حفاظتی لباس دیے گئے ہیں۔

اس کے باوجود یہ تمام چیزیں پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

جمعرات کو ایک 35 سالہ ڈاکٹر میں کورونا کی تشخیص ہوئی جو کہ پرائیوٹ ہسپتال میں کام کرتے ہیں اور اس کچی آبادی میں رہتے ہیں۔ میونسپلٹی کے ملازمین ان کو علیحدہ کرنے کے لیے وہاں یکجا ہو گئے اور جہاں ڈاکٹر رہتے ہیں اس عمارت کو سیل کر دیا ہے۔

وہاں ڈاکٹر کے علاوہ 300 دوسرے افراد بھی رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے ڈاکٹر کے قریبی رابطے والے 13 ہائی رسک افراد کے تھوک اور بلغم کو کورونا کی جانچ کے لیے بھیجا ہے۔ ڈاکٹر نے حکام کو بتایا کہ ان کے ہسپتال میں دو نرسز میں بھی وائرس پازیٹو ملا ہے اور ہفتے کے دنوں میں اسی عمارت میں جہاں 60 سالہ تاجر رہتے تھے وہاں ایک 30 سالہ خاتون اور 21 سالہ لیب ٹیکنیشین کی رپورٹ بھی پازیٹو آئی ہے۔

مسٹر دگھاوکر نے کہا: 'ہم اب بھی اس دروازے والی کچی آبادی میں انفیکشن کو محدود کرنے کے قابل ہیں لیکن اس کے باہر بھی سلمز ہیں اور اگر وہاں اس طرح کے کیسز آتے ہیں تو انھیں گھروں میں علیحدہ کرنا مشکل ہوگا اور ہائی رسک کیسز کو بھی سپورٹس کمپلیکس میں قائم قرنطینہ مرکز میں بھیجنا ہوگا۔'

اگر ایسا ہوتا ہے تو انفیکشن کو روکنے کی جنگ خطرناک ہو جائے گی۔ مقامی ہسپتال اور عارضی قرنطینہ کم پڑ جائیں گے۔

Dharavi and Mumbai

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنممبئی کا شمار دنیا کے سب سے گنجان آباد شہروں میں ہوتا ہے

جانچ میں تیزی لانی ہوگی اور ان کے نتائج کو بروقت آنا ہوگا۔ تاجر اور ڈاکٹر کے پہلے دو کیسز کے بعد اس کچی آبادی سے 21 نمونے لیے گئے ہیں اور 48 گھنٹے گزرنے کے بعد ابھی صرف سات لوگوں کی رپورٹ آئی ہے۔ سرکاری ہسپتال جہاں جانچ ہوتی ہے اس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جانچ کے لیے نمونوں کی بھرمار ہے۔ نئے دو کیسز کے سامنے آنے کے بعد مزید 23 نمونے لیے گئے ہیں اور انھیں سنیچر کو لیب میں جانچ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ابھی واضح نہیں کہ ان کے نتائج کب تک آئیں گے۔

دھاراوی کے سلم میں ہیلتھ ٹیم کی سربراہی کرنے والے میڈیکل آفیسر ویریندر موہت نے مجھے بتایا: 'نتائج میں تاخیر کے سبب ہمارا وقت برباد ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے جو لوگ پازیٹو ہیں ان کو منتقل کرنے میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔'

اس وبا کو پھیلنے سے روکنے میں یہ بعض حقیقی چیلنجز ہیں جو اس محدود اور منفرد کچی آبادی کو درپیش ہیں جہاں ماہی گیر سے لے کر کمہار، بڑھی، پوشاک بنانے والے، درزی، اکاؤنٹینٹس، کباڑ کے کاروباری، یہاں تک کہ ممبئی کے بعض سب سے تیز ترار ریپر بھی رہتے ہیں۔ مصنف اینی زیدی نے ایک بار لکھا تھا کہ دھاراوی ایک ایسی جگہ ہے جو کہ بیک وقت 'مایوسی اور ہمت، پیش قدمی اور انتہائی سخت کوشش کی کہانیوں سے پُر ہے۔'

لیکن اب اس کو قیامت خیز وبا سے بچنے کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔