فاروق عبداللہ: انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیرِاعلی کی رہائی کا حکم لیکن سیاسی سرگرمیوں پر پابندی

    • مصنف, ریاض مسرور
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی سب سے پرانی ہندنواز تنظیم نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ کو منسوخ کرنے کا حکم ایسےو قت جاری کیا گیا ہے جب بعض سیاسی رہنماوں نے ایک نئی سیاسی تنظیم قائم کرکے غیرسیاسی ایجنڈے پر سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔

فاروق عبداللہ ، اُن کے بیٹے اور سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ اور سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو گزشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خود مختاری کے خاتمے کے فوراً بعد قید کیا گیا تھا۔ عمرعبداللہ پر لگے سیفٹی ایکٹ کو اُن کی بہن نے سپریم کورٹ میں چلینج کیا تھا تاہم کیس کی سماعت تاخیر کا شکار ہے۔

سرکاری حکم نامہ جاری ہوتے ہی پولیس نے فاروق عبداللہ کے گھر کی جانب جانے والی شاہراہ کو سیل کردیا اور میڈیا یا عام لوگوں کو فاروق عبداللہ سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

تاہم چند گھنٹوں کے میڈیا کو شوٹنگ کی اجازت دی گئی اور اپنے گھر کی چھت سے دو سو میٹر دُور جمع نامہ نگاروں کو فاروق نے بتایا: ’اللہ کا شکر ہے میں اب ایک آزاد شہری ہوں، لیکن یہ آزادی مکمل نہیں ہے۔ میں تب تک کوئی سیاسی بات نہیں کروں گا جب تک عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور دوسرے رہنماؤں کو بھی رہا نہیں کیا جاتا۔ لیکن میں پارلیمنٹ کے اندر لوگوں کے حقوق کی خاطر جدوجہد کروں گا۔‘

فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس گزشتہ کئی ماہ سے پچھلے سال اگست کے نئی دلی کے فیصلے کی مخالفت کرتی رہی ہے اور تب تک سیاسی جدوجہد کرنے کا اعلان کرچکی ہے جب کشمیر کی آئینی خودمختاری بحال نہیں کیا جاتی۔

واضح رہے گزشتہ دنوں نئی دلی میں کانفریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے مشترکہ بیان میں کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی دوران محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور غلام نبی آزاد کی جماعتوں کے بعض باغی لیڈروں پر مشتمل ایک گروہ سابق وزیر الطاف بخاری کی قیادت میں جمع ہوا اور اُس نے ’اپنی پارٹی‘ نام سے سے ایک نئی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔

بخاری کا کہنا ہے کہ وہ کوئی سیاسی ایجنڈا لے کر نہیں آئے ہیں بلکہ وہ لوگوں کی بہبود ، خوشحالی اور تعمیر و ترقی کے لئے کام کریں گے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ اگر واقعی فاروق عبداللہ کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ملتی ہے تو بخاری کا گروہ حاشیہ پر چلا جائے گا۔ تجزیہ نگار طارق علی میر کتہے ہیں: ’فاروق عبداللہ اس وقت جموں کشمیر کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ اگر واقعی نئی دلی کے ساتھ اُن کی کوئی مفاہمت ہوتی ہے تو تیسرے محاذ کی سیاست شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی۔‘

واضح رہے گزشتہ برس اگست میں جب نریندر مودی کی حکومت نے پارلیمنٹ میں جموں کشمیر کی تشکیل نو کا اعلان کرکے کشمیر اور لداخ کو دو الگ الگ مرکز کے انتظام والے علاقوں میں تقسیم کردیا تو عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے سبھی سیاسی رہنماؤں سمیت ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ انٹرنیٹ اور فون رابطوں پر پابندی عائد کی گئی جو چھ ماہ بعد نرم کی گئی۔ ابھی بھی کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئی ہیں۔