#AfghanPeaceDeal: امریکہ کے ساتھ معاہدے کے بعد طالبان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

،تصویر کا ذریعہAFP
- مصنف, سکندر کرمانی
- عہدہ, بی بی سی نیوز، کابل
امریکہ، افغان اور طالبان حکام سنیچر کو دوحہ میں ہونے والے معاہدے کو ’امن معاہدہ‘ قرار دینے میں محتاط انداز میں گریز کرتے رہے۔ مگر افغانستان میں گذشتہ ہفتے کے دوران ’تشدد میں کمی‘ یا معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے عارضی جنگ بندی کے باعث محتاط رجائیت کا احساس بڑھ رہا ہے۔
ہم یہاں تک (معاہدے ہونے تک) کیسے پہنچے؟ اور ایسا ہونے میں اتنا وقت کیوں لگا؟
افغان جنگ اب گذشتہ کئی برسوں سے ایک خونی تعطل کا باعث بنی ہوئی ہے، جس میں طالبان زیادہ سے زیادہ علاقوں پر یا تو کنٹرول رکھتے ہیں یا ایسا کرنے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں تاہم وہ بڑے شہروں پر قبضہ کرنے اور قابو پانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ احساس اب گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ دونوں فریقین، امریکہ اور طالبان، میں سے کوئی بھی فوجی لحاظ سے اس جنگ کو مکمل طور پر جیتنے کے قابل نہیں ہے۔ جبکہ دوسری جانب صدر ٹرمپ انتہائی واضح انداز میں اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
امریکہ کی جانب سے سنہ 2018کا وہ فیصلہ جس کے تحت ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی دیرینہ پالیسی، یعنی طالبان امریکہ سے پہلے افغان حکومت سے بات چیت کریں بدلی اور درحقیقت یہ امریکہ کی جانب سے طالبان کو دی گئی بڑی مراعات میں سے ایک تھی۔ طالبان موجودہ افغان حکومت کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
اس کے بجائے امریکہ طالبان کے سب سے بڑے مطالبے، یعنی افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کا انخلا، پر بات چیت کرنے کے لیے براہ راست طالبان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
یہ بات چیت سنیچر کو ہونے والے معاہدے کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔ جس کے بدلے میں طالبان القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کے لیے رضامند ہوئے۔ القاعدہ درحقیت وہ وجہ تھی جس کے باعث امریکہ نے سنہ 2001 میں افغان جنگ کا آغاز کیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اب یہ معاہدہ شدت پسندوں اور دیگر افغان سیاسی رہنماؤں اور حکومتی شخصیات کے مابین علیحدہ اور وسیع تر بات چیت کا دروازہ کھولے گا۔
یہ بات چیت اور مباحثے کہیں زیادہ چیلنجنگ ہوں گے۔ کسی نہ کسی سطح پر طالبان کے 'اسلامی امارات' کے وژن اور سنہ 2001 کے بعد تشکیل پانے والے جدید جمہوری افغانستان کے مابین مفاہمت ہو گی۔
مگر اس مفاہمت کے درمیان خواتین کے حقوق کا کیا بنے گا؟ طالبان کی جمہوریت کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اس تمام سوالات کا جواب صرف اس وقت مل پائے گا جب ’انٹرا افغان مذاکرات‘ کا آغاز ہو گا۔
اب تک طالبان نے شاید جان بوجھ کر اس معاملے کو مبہم رکھا ہے۔ ان مذاکرات کے شروع ہونے سے قبل ہی ممکنہ رکاوٹیں موجود ہیں۔ طالبان مذاکرات کے آغاز سے قبل اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں جبکہ افغان حکومت ان قیدیوں کو سودے بازی کی غرض سے استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ طالبان کو جنگ بندی پر راضی کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ افغانستان کے صدارتی انتخابات پر سیاسی تنازع بھی ہے کیونکہ موجودہ صدر اشرف غنی کے سیاسی مخالف عبداللہ عبداللہ ان پر الیکشن فراڈ کا الزام عائد کرتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام جامع مذاکراتی ٹیم کے قیام کو مشکل بنا سکتا ہے، وہ جامع مذاکرتی ٹیم جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے کی اور جس کی خواہش بین الاقوامی برادری کو ہے۔
مجھ سے بات کرتے ہوئے ایک افغان عہدیدار نے اعتراف کیا کہ ’انٹرا‘ افغان مذاکرات اپنے آغاز کے بعد مکمل ہونے میں سالوں کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ مگر دوسری جانب امریکہ نے عندیہ دیا ہے کہ اگر طالبان اپنے وعدوں پر پورے اترتے ہیں تو وہ آئندہ 14 ماہ میں اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلا لے گا۔

،تصویر کا ذریعہReuters
اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں ہے مگر اگر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پاتا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ بتائی گئی مدت کے بعد بھی افغانستان میں قیام کرے گا۔
افغان عہدیداروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی فوجیوں کا انخلا 'مشروط' ہے تاہم ایک سفارت کار نے مجھے بتایا کہ انخلا صرف ’انٹرا افغان مذاکرات‘ کے آغاز سے مشروط تھا نہ کہ مذاکرات کے اختتام سے۔ انھوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ اگر امریکہ نے فورسز کا انخلا کرنا ہے اور طالبان نے میدان جنگ میں پہلے سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو افغان افواج انتہائی غیر محفوظ ہو جائیں گی۔
دیگر تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ طالبان مراعات دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتے ہیں، انھوں نے سنیچر کے معاہدے کو ایک ’فتح‘ کے طور پر اپنے حامیوں کے سامنے پیش کیا، تاہم طالبان بین الاقوامی قانونی جواز اور اپنے آپ کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔ اور دوحہ میں ہونے والی تقریب کی دھوم دھام نے انھیں یہ موقع فراہم کیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات اپنے مقاصد کے حصول کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔
بہت سے عام افغانوں کی ترجیح ، کم سے کم قلیل مدت میں، تشدد میں خاطر خواہ کمی ہے۔ اس (تشدد میں کمی) کا اندازہ ہمیں آنے والے ہفتوں میں ہو جائے گا کیونکہ موسم بہار میں گرم موسم عموماِ ’لڑائی کے موسم‘ کا اعلان ہوتا ہے۔










