آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
#Tehran: یوکرینی طیارہ گرنے سے متعلق ’جھوٹ‘ بولنے پر تہران میں حکومت مخالف مظاہرے، برطانوی سفیر گرفتاری کے بعد رہا
ایران کے دارالحکومت تہران میں سینکڑوں مظاہرین نے حکام کی جانب سے یوکرینی طیارہ گرائے جانے کے اعتراف کے بعد ایرانی حکومت ’جھوٹا‘ قرار دیا ہے۔
سنیچر کو ایران نے تسلیم کیا تھا کہ اس نے ’غیر ارادی طور پر‘ یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرایا تھا جس سے مسافر اور عملہ سمیت جہاز پر سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تہران میں کم از کم دو جامعات کے باہر مظاہرے دیکھنے میں آئے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ مظاہرے کے بعد تہران میں برطانیہ کے سفیر روب میکایئر کو بھی گرفتار کیا گیا، جنھیں تین گھنٹے تحویل میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان ’متاثر کن‘ مظاہروں کے لیے اپنی حمایت کا اعلان فارسی اور انگریزی میں لکھی گئی دو ٹویٹس میں کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
یوکرین کی بین الاقوامی فضائی کمپنی کی پرواز پی ایس 752 بدھ کو ایران کے دارالحکومت تہران سے یوکرین کے دارالحکومت کیئو جانے کے لیے پرواز بھری تاہم طیارہ چند ہی منٹ بعد گِر کر تباہ ہو گیا تھا۔
اس کے گرنے کی اطلاعات اس وقت آئیں تھیں جب ایران جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جوابی کارروائی میں عراق میں موجود دو امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کر رہا تھا۔ 3 جنوری کو ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی بغداد میں موجود تھے جب انھیں صدر ٹرمپ کے حکم کے تحت ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
مظاہروں میں کیا ہوا؟
اطلاعات کے مطابق ایران کے طلبا نے تہران میں ’شریف‘ اور ’امیر کبیر‘ نامی دو یونیورسٹیوں میں مظاہرے کیے۔ ابتدائی طور پر وہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے متاثرین کی یاد میں تقریب کا انعقاد کر رہے تھے تاہم بعد ازاں یہ تقاریب مظاہروں کی شکل اختیار کر گئیں اور سنیچر کی شام تک انھوں نے شدت اختیار کر لی تھی۔
نیم سرکاری خبر رساں ادارے فارس نے بدامنی سے متعلق ایک انوکھی رپورٹ بھی جاری کی جس میں کہا گیا کہ ایک ہزار کے قریب لوگوں نے ایرانی رہنماؤں کے خلاف نعرے لگائے اور جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر پھاڑ دیں ہیں۔
طلبا نے مطالبہ کیا کہ وہ ایرانی اہلکار جنھوں نے طیارہ گرایا یا اس حادثے کو ’چھپانے کی کوشش کی‘ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
ان نعروں میں ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کی طرف بھی اشارہ کیا گیا اور ان کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔ ’جھوٹ بولنے والوں کو مار دیا جائے‘ جیسے الفاظ نعروں کا حصہ تھے۔
اس خبر کے مطابق پولیس نے ان مظاہرین کو منتشر کیا جنھوں نے سڑکوں کو بلاک کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی گئی۔
سوشل میڈیا صارفین نے بھی حکومتی اقدامات کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔
ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا ’میں اپنے ملک کے حکام کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ ان لوگوں کو جو سب جانتے ہوئے جھوٹ بول رہے تھے۔‘
تاہم یہ مظاہرے اس بڑے ہجوم سے کافی چھوٹے تھے جو ایران کے کئی شہروں میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ان کے لیے تین روزہ سوگ میں دیکھے گئے۔
برطانوی سفیر کی گرفتاری
تہران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران حکام نے ایران میں برطانیہ کے سفیر کو گرفتار کر لیا ہے۔
تہران میں برطانیہ کے سفیر روب میکایئر کو تین گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ نے اپنے سفیر کی گرفتاری کے اقدام کو ’بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔
برطانوی سفیر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ یوکرینی جہاز میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شامل تھے، یہ تقریب بعد ازاں مظاہرے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
تقریب میں شمولیت کے بعد وہ برطانیہ کے سفارت خانے کے لیے روانہ ہوئے مگر راستے میں حجامت بنوانے کے لیے ایک حجام کی دوکان پر رکے جہاں ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’تہران میں بغیر وجہ اور بغیر وضاحت ہمارے سفیر کی گرفتاری بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
روب مکیئر کو امیر کبیر یونیورسٹی کے باہر ایک مظاہرے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا
برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران ’اپنی الگ تھلگ حیثیت برقرار رکھ سکتا ہے۔ یا تناؤ کم کرنے کے اقدام اور سفارتی راستے اپنا سکتا ہے۔‘
کیا ردعمل آیا ہے؟
ان مظاہروں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انگلش اور فارسی زبانوں میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایران کے بہادر اور متاثرہ لوگوں کے لیے میرا یہ پیغام ہے کہ میں صدر بننے سے لے کر اب تک آپ کے ساتھ کھڑا رہا ہوں اور ہماری حکومت آپ کا ساتھ دیتی رہے گی۔‘
’ہم بغور ان مظاہروں پر نظر رکھ رہے ہیں۔ آپ کی ہمت متاثر کن ہے۔‘
صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’ایرانی حکومت ایران کے باشندوں کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں کے زمینی حقائق کی نگرانی کرنے کے لیے انسانی حقوق کے گروپس کو اجازت دے۔ پرامن مظاہرین کا ایک اور قتلِ عام نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی انٹرنیٹ کی بندش۔ دنیا دیکھ رہی ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران میں مظاہروں کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایرانی لوگوں کی آواز سے سب صاف ہوچکا ہے۔ وہ حکومت کے جھوٹ، بدعنوانی اور نااہلی سے تنگ آچکے ہیں جبکہ خمنہ ای کی بدعنوانی کے نیچے کام کرنے والے ایرانی پاسداران انقلاب ان پر ظلم کرتی ہے۔‘
’ہم ایرانی لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو بہتر مستقبل کے مستحق ہیں۔‘
ایران نے اعتراف میں کیا کہا تھا؟
طیارہ گر کر تباہ ہونے کے تین دن تک ایران نے ایسی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا جن میں کہا گیا تھا کہ یہ حادثہ ان کے میزائل حملوں کی وجہ سے پیش آیا۔ ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک ’جھوٹ بول رہے ہیں اور نفسیاتی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔‘
لیکن سنیچر کی صبح ایرانی فوج کی طرف سے آیا بیان سرکاری ٹی وی پر پڑھا گیا جس میں اعتراف کیا گیا کہ یوکرینی طیارہ ’غیر ارادی طور پر‘ اور ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے گرا تھا۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے سنیچر کو ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’افواج کی اندرونی تحقیقات سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ انسانی غلطی کی وجہ سے غیر ارادی طور پر یوکرین کے طیارہ پر میزائل داغے گئے جس کی وجہ سے اسے خوفناک حادثہ پیش آیا اور 176 معصوم لوگ ہلاک ہو گئے۔‘
فوج کے بیان میں کہا گیا کہ ’اس طیارے کے اڑنے کا انداز اور بلندی ایک دشمن ہدف جیسے تھے۔۔۔ یوکرینی طیارے کو غلطی سے خطرناک ہدف سمجھ کر میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔‘
پاسداران انقلاب کے فضائی کمانڈر بریگیڈیئر عامر علی حاجی زادہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ مسافر طیارے کو غلطی سے ’کروز میزائل‘ سمجھا گیا کیونکہ ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ ایران پر حملہ کیا جا رہا ہے۔
’ہمارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے صرف 10 سیکنڈ تھے۔ ہمیں فیصلہ کرنا تھا کہ جوابی کارروائی کرنی ہے یا نہیں اور ان حالات میں ہم نے غلط فیصلہ کیا۔‘
ان کے مطابق مواصلاتی نظام میں خامی کے باعث وہ اس طیارے کی شناخت نہ کر سکے اور اب آئندہ فوجی سسٹم میں بہتری سے ایسی غلطیاں دوبارہ نہیں ہوں گی۔
تاہم اس کے باوجود اب سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایران اتنی دیر تک چپ کیوں رہا تھا۔
طیارے پر 57 کینیڈین شہری سفر کر رہے تھے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے حادثے کو 'قومی سانحہ' قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ’ہم متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے شفاف تحقیقات اور انصاف کے مطالبات رہے ہیں۔‘
یوکرین کے صدر ولادمیر زیلینسکی کے کہا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ ایران ملوث افراد کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔‘