ٹڈی دل: پاکستان سے آنے والی ٹڈیوں کو بھگانے کے لیے انڈین گجرات کے کسان کیا کیا جتن کر رہے ہیں؟

دو ہفتے قبل پاکستان سے انڈیا میں داخل ہونے والا ٹڈی دل گجرات کے کسانوں کو موٹے موٹے آنسو رلا رہا ہے۔

شمالی گجرات کے ضلع بناسکانتھا میں ٹڈی دل نے سرسوں، ارنڈی، میتھی، گندم اور زیرے کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

گجرات کے کسانوں کی تنظیموں کے مطابق ٹڈیوں نے آٹھ ہزار ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر کھڑی فصل کو نقصان پہنچایا اور اس سے بناسکانٹھا ضلع کی تحصیل سوئیگام، ڈنٹا، تھراڈ اور واو کے کاشتکار سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

اب گجرات حکومت کا دعوی ہے کہ صورتحال قابو میں ہے اور پانچ ہزار ہیکٹر سے زیادہ اراضی پر لگ بھگ 4900 لیٹر کیڑے مارنے والی دوا چھڑک کر ٹڈیوں کو ہلاک یا مار بھگایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس کے ساتھ ریاست کے محکمہ زراعت نے تباہ شدہ فصل کے بدلے میں کسانوں کو معاوضے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار تیجس وید صورت حال کا جائزہ لینے بناسکانٹھا پہنچے کہ کاشتکاروں نے کس طرح ٹڈی دل کے حملے سے نجات حاصل کی، فصل کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور وہ بچاؤ کے لیے وہ مزید کیا کر رہے ہیں۔

کسانوں کی مصیبتیں

بناسکانتھا ضلع کے نارولی گاؤں میں انھوں نے کچھ کسانوں سے ملاقات کی جو ٹڈیوں کو اڑانے کے لیے کھیتوں میں جمع ہوئے تھے۔

ان لوگوں کے ہاتھوں میں پلیٹیں یا تھالیاں اور رکابیوں کے ساتھ ٹن کے ڈبے تھے اور ان کو بجانے یا اس سے شور پیدا کرنے کے لیے سب نے ایک ہاتھ میں لکڑیاں لے رکھی تھیں۔

ان کو پیٹنے پر جو آواز نکلتی وہ کھیتوں میں دور تک جاتی اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹڈیوں نے تیز شور سننے کے بعد اپنی جگہ چھوڑ دی۔

لیکن اس کام میں ان کا بہت زیادہ وقت ضائع ہو رہا ہے اور فصل کو بچانے کی یہ کوشش فی الوقت ان کی مجبوری ہے۔

نارولی گاؤں میں رہنے والی کملا پٹیل کا کہنا تھا کہ 'پورا خاندان ٹڈیوں کو اڑانے میں لگے ہیں۔ کھانا کھانے کا وقت بھی نہیں مل رہا ہے۔ کیا ہو رہا ہے ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے۔ گھریلو مویشیوں کا کام کرنے سے قاصر ہیں۔ صبح اٹھ کر برتن لے کر کھیتوں کو چل دیتے ہیں۔ پھر بھی فصل کو بہت نقصان ہو چکا ہے۔'

اسی گاؤں کی پاروتی پٹیل کی زیرے اور میتھی کی فصلوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

وہ کہتی ہیں: 'ہم نے فصل بونے کے بعد دو مہینے اس پر محنت کی لیکن ان ٹڈیوں نے دو گھنٹوں میں ہی آدھی سے زیادہ فصل کو چبا لیا۔'

پاروتی پٹیل کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں سرسوں، میتھی اور زیرے جیسی نازک فصلیں ہوتی ہیں۔ ان فصلوں کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ یہ فصلیں ٹڈی کے حملے برداشت نہیں کرسکتیں۔

اسی گاؤں کے لکشمن پٹیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے تین بگھے زمین میں زیرے، دو بگھے میں سرسوں، ایک بگھے میں ارنڈی اور پانچ بیگھے میں میتھی کاشت کیا۔ اگر فصل اچھی ہوتی توانھیں اس سے پانچ لاکھ روپے تک مل سکتے تھے۔ لیکن ٹڈیوں نے فصل کا ایک بڑا حصہ کھا لیا۔

انھیں یہ خدشہ ہے کہ اپنی باقی بچی ناقص فصل کے انھیں پیسے ملیں گے بھی یا نہیں۔

گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ 14 دسمبر کو ان کے علاقے میں پاکستان کی جانب سے ٹڈیوں کے آنے کی خبر آئی تھی۔

ٹڈیوں کو مارا کس طرح گیا؟

گجرات کے وزیر زراعت آر سی فلڈو نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹڈیوں کی تعداد سے پتا چلتا ہے انہوں نے فصل کو کتنا نقصان پہنچایا ہے جبکہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کی تشکیل کردہ ٹیمیں اس پر مستقل طور پر کام کر رہی ہیں۔

ریاست کے محکمہ زراعت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کا ایک بڑا حصہ تباہ ہلاک کر دیا گيا ہے۔ اس کے لیے اس علاقے میں سیکڑوں لیٹر کیڑے مارنے والی دوا چھڑکنا پڑا ہے۔ لوگوں نے اپنی سطح پر بھی کچھ طریقے اپنائے ہوئے۔ فی الحال، باقی ٹڈیاں گجرات سے متصل جالور ضلع (راجستھان) کی طرف بڑھ گئی ہیں۔ مرکزی حکومت کی ٹیمیں ان کے پیچھے ہیں۔

زرعی ماہرین کے مطابق یہ 'ڈیزرٹ ہوپر' نسل کی ٹڈیاں ہیں جو طویل فاصلے تک اڑ سکتے ہیں۔ جھنڈ میں ان ٹڈیوں کا رویہ بہت جارحانہ ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل افریقی ممالک میں ان کے پھیلنے کی خبریں سرخیوں میں تھیں۔

سنہ 2017 میں بولیویا کی حکومت کو ایک بڑے زرعی علاقے میں ٹڈیوں کے حملے کی وجہ سے ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنا پڑا تھا۔

ٹڈی کی یہ نسل صرف جنوبی ایشین ممالک جیسے ہندوستان اور پاکستان میں اپنے دل کے ساتھ فصلوں کا صفایا کرنے کے لیے معروف ہے۔

برطانیہ کے فوڈ اینڈ انوائرنمنٹ انسٹی ٹیوٹ یعنی فیرا نے اس کیڑے پر ایک تحقیق کی ہے جس میں پتا چلا ہے کہ ٹڈیوں کی کھانے کی صلاحیت اور رفتار مویشیوں سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے۔ یہ ٹڈیاں اپنے وزن کے حساب سے خود سے کہیں زیادہ وزنی جانوروں کی بنسبت آٹھ گنا تیز رفتار سے سبز چارہ کھا سکتی ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق محکمہ زراعت کے سینیئر عہدیدار پونم چند پرمار نے کہا ہے کہ گجرات میں اب کوئی ٹڈی نہیں بچی ہے۔ زیادہ تر گذشتہ تین روزہ آپریشن میں ہلاک ہو گئی ہیں۔ مرکزی حکومت کی آٹھ ٹیمیں اس میں ہماری مدد کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا: 'حکومت نے دس ہزار ہیکٹر اراضی کا سروے کیا ہے جس میں سے سات ہزار ہیکٹر اراضی پر ٹڈیاں ملی ہیں۔ یہ ٹڈییاں پاکستان کے تھرپارکر سے آئی ہیں۔ شمالی گجرات کا یہ علاقہ ان ٹڈیوں کی نقل مکانی کے راستے پر ہے۔'