چین: اویغور مسلمانوں کے ساتھ تربیتی کیمپوں میں ہونے والی ’برین واشنگ‘، بی بی سی پینوراما نے لیک شدہ دستاویزات حاصل کر لیے

،تصویر کا ذریعہReuters
چین کی انتہائی سکیورٹی والی جیلوں کے نیٹ ورک میں ہزاروں مسلم اویغوروں کے زبردستی ذہنی خیالات تبدیل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
چین کی جیلوں کے نیٹ ورک کے بارے میں لیک ہونے والی سرکاری دستاویزات میں ملنے والی تفضیلات سے پہلی بار اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح چین منظم نظام کے ذریعے مسلم اویغورں سمیت دیگر قیدیوں کی ’سوچ کو زبردستی تبدیل‘ کر رہا ہے۔
چینی حکومت نے مسلسل یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دور دراز کے مغربی سنکیانگ خطے میں قائم ان مراکز میں رضاکارانہ طور پر تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔
لیکن سرکاری دستاویزات، جو بی بی سی پینورما نے دیکھی ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے قیدیوں کو ان جیلوں میں قید رکھا جاتا ہے، کیسے ان کو سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے اور ان کو کس طرح سزائیں دی جاتی ہیں۔
تاہم برطانیہ میں چین کے سفیر نے دستاویزات کو جعلی خبر قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ سرکاری دستاویزات بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کو لیک کی گئی تھی۔ جو 17 میڈیا شراکت داروں کے ساتھ کام کرتا ہے اور جس میں بی بی سی پینورما اور برطانیہ کا اخبار دی گارجیئن بھی شامل ہیں۔
تحقیقات میں ایسے نئے شواہد ملے ہیں جو بیجنگ کے اس دعوے کو مسترد کرتا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں سنکیانگ میں بنائے جانے والے حراستی مراکز انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے رضاکارانہ طور پر تعلیم فراہم کرنے کے مقاصد کے لیے ہیں۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان حراستی مراکز میں دس لاکھ افراد جن میں زیادہ تر مسلم اویغور برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھا گیا ہے۔
چینی حکومت کی لیک ہونے والی دستاویزات، جنھیں آئی سی آئی جے نے ’دی چائنا کیبلز‘ کے نام سے منسوب کیا ہے، میں سنہ 2017 میں سنکیانگ کی کمیونسٹ پارٹی کے اس وقت کے نائب سکریٹری اور اس خطے کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار، ژہو ہیلون کی جانب سے ان حراستی مراکز کو چلانے والوں کے نام بھیجے گئے نو صفحات پر مشتمل مراسلے شامل ہے۔
ان مراسلوں میں دی گئی ہدایات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان مراکز کو سخت نظم و ضبط کے تحت سزائیں دینے اور کسی کو فرار کا موقع فراہم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی سکیورٹی والی جیلوں کی طرح چلائے جانے کا کہا گیا ہے۔
مراسلے میں درج ذیل احکامات شامل ہیں
- ’کبھی بھی کسی کو فرار ہونے کی اجازت نہیں‘
- ’طرز عمل کی خلاف ورزیوں میں نظم و ضبط اور سزا میں اضافہ کیا جائے‘
- ’توبہ اور پچھتاوے کو فروغ دیا جائے‘
- ’چینی زبان کے مطالعے کو اولین ترجیح دی جائے‘
- ’طلباء کو واقعتاً بدلنے کی ترغیب دی جائے‘
- ’(اس بات کو یقینی بنائیں کہ) ہاسٹلوں اور کلاس رومز کے ہر حصے کی مکمل ویڈیو نگرانی کی جائے‘
دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ کس طرح سے ان مراکز میں قید ہر فرد کی زندگی کے ہر پہلو کی نگرانی کی جاتی ہے اور اس پر قابو پایا جاتا ہے:
’طلبا کو بستر کی ایک مقررہ جگہ، قطار بنانے کی مقررہ جگہ، کلاس روم کی مقررہ نشست، اور ہنر سیکھنے کے کام کے دوران مقررہ جگہ پر ہی ہونا چاہئے، اور اس کو بدلنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
(ان مراکز میں قید افراد کا) جاگنے، حاضری لگانے، کپڑے دھونے، بیت الخلا جانے، گھریلو کام کاج کرنے، کھانے، مطالعہ کرنے، سونے، دروازہ بند کرنے اور اسی طرح کے رویے کے اصولوں اور ضابطی تقاضوں کو سختی سے نافذ کرنا شامل ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
دیگر دستاویزات ان مراکز میں قید کے غیر معمولی پیمانے کی تصدیق کرتی ہیں۔ایک دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سنہ 2017 میں صرف ایک ہفتے کے دوران جنوبی سنکیانگ سے15000 افراد کو ان کیمپوں میں بھیجا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کے چین کے ڈائریکٹر، سوفی رچرڈسن نے کہا ہے کہ لیک ہونے والے مراسلے کو استغاثہ کے ذریعہ استعمال کیا جانا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک قابل عمل ثبوت ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی دستاویز ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں یہ مناسب ہے کہ ہر ایک شخص جس کو حراست میں رکھا گیا ہے اور اسے کم سے کم نفسیاتی اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ وہ اصل میں نہیں جانتے ہیں کہ وہ وہاں کتنے عرصے تک رہیں گے۔‘
چین کی لیک ہونے والی سرکاری دستاویزات کے مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح قیدیوں کو صرف اس وقت ان مراکز سے رہا کیا جائے گا جب وہ یہ ظاہر کرسکیں گے کہ انھوں نے اپنے طرز عمل، عقائد اور زبان کو تبدیل کر دیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ’طلبا میں ان کی ماضی کی سرگرمیوں کو غیر قانونی، مجرمانہ اور خطرناک نوعیت کا احساس جگانے اور سمجھانے کے لیے ان میں توبہ اور پچھتاوے کو فروغ دیا جائے۔‘
’ان لوگوں کے لیے جو مبہم خیالات، منفی رویے یا حتیٰ کہ مزاحمت کے جذبات رکھتے ہیں…میں تبدیلی لانے کے لیے اور نتائج کو یقینی بنانے کے لیے تعلیم کے طریقہ کار میں تبدیلی کی جائے۔‘
انسانی حقوق کے سرکردہ وکیل اور عالمی اویغور کانگریس کے مشیر بین ایمرسن کیو سی نے کہا کہ یہ حراستی کیمپ لوگوں کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ امر بہت تکلیف دہ ہے کہ بڑے پیمانے پر ایک پوری نسلی برادری کے ذہنی خیالات کو زبردستی تبدیل کرنے کے لیے ایک خاص حکمت عملی مرتب دی گئی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک مکمل تبدیلی ہے جو خاص طور پر سنکیانگ کے مسلم اویغوروں کو ایک الگ ثقافتی گروہ کے طور پر زمین سے مٹانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty
میمو کے مطابق، نظربند افراد کو ان کی 'نظریاتی تبدیلی، مطالعے اور تربیت، اور نظم و ضبط کی تعمیل' کے لیے پوائنٹس دیے گئے ہیں۔
سزا اور جزا کا نظام اس بات کا تعین کرنے میں مدد کرتا ہے کہ آیا قیدیوں کو خاندان کے ساتھ رابطے کی اجازت ہے اور کب انھیں رہا کیا جائے۔ ان قیدیوں کی رہائی پر صرف تب غور کیا جاتا ہے جب کمیونسٹ پارٹی کی چار کمیٹیاں ان شواہد کا جائز لیتی ہیں کہ وہ واقعی تبدیل ہو چکے ہیں۔
لیک ہونے والی دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح چینی حکومت بڑے پیمانے پر نگرانی اور ایک پیش گوئی کرنے والے پولیسنگ نظام کا استعمال کرتی ہے جس سے ان قیدیوں کے ذاتی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اس نظام نے 18 لاکھ افراد کی صرف اس لیے نشاندہی کی کیونکہ وہ اپنے موبائل فونز میں زیپیا نامی ڈیٹا شیئرنگ ایپ استعمال کر رہے تھے۔
تب حکام نے ان میں سے 40577 افراد کی ’ایک ایک کر کے‘ تحقیقات کا حکم دیا۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’اگر شکوک و شبہات ختم نہیں ہوتے‘ تو انھیں ’ان مراکز میں تربیت‘ کے لیے بھیجا جانا چاہئے۔
دستاویزات میں غیر ملکی شہریت کے رکھنے والے اویغوروں کو گرفتار کرنے اور بیرون ملک مقیم اویغوروں کا سراغ لگانے کی واضح ہدایات شامل ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس عالمی جال میں چین کے سفارتخانے اور قونصل خانے بھی ملوث ہیں۔
برطانیہ میں چینی سفیر لیو ژاؤومنگ نے کہا کہ ان اقدامات سے مقامی لوگوں کی حفاظت ہوئی ہے اور سنکیانگ میں گذشتہ تین برسوں میں ایک بھی دہشت گرد حملہ نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب اس خطے میں نسلی گروہوں کے درمیان معاشرتی استحکام اور اتحاد ہے۔ وہاں کے لوگ تکمیل اور سلامتی کے زیادہ مضبوط احساس کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔‘
’حقائق کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے، مغرب میں کچھ لوگ سنکیانگ پر چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بہانہ پیدا کرنے، سنکیانگ میں چین کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو روکنے اور چین کی مستحکم ترقی کو ناکام بنانے کی کوششوں پر چین کی شدید تنقید کر رہے ہیں۔‘










