آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر پر بیان: ’انڈیا بزورِ ہتھیار کشمیری مسلمانوں کو اقلیت بنانا چاہتا ہے‘
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انڈیا ہتھیاروں کے زور پر اپنے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
منگل کو جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انڈیا کا یہ دعویٰ شدید جھوٹ ہے کہ یکطرفہ اقدامات اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
’کشمیر انڈیا کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ سات دہائیوں سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ 16 اگست کو سلامتی کونسل میں جموں اور کشمیر پر ہونے والی سلامتی کونسل کی میٹنگ اس حقیقت کی تائید کرتی ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے انڈیا اپنی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کی جانب سے پانچ اگست کو سلامتی کونسل کی جانب سے متنازع علاقہ تسلیم کیے گئے جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدامات بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات متنازع علاقوں سے اور ان کی جانب ہجرت کی ممانعت کرنے والے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہیں۔
کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کی اس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جس میں ایک کشمیری نوجوان نے انڈین فورسز کے تشدد سے مجبور ہو کر کہا تھا کہ 'ہم پر تشدد نہ کریں، بس گولی مار دیں'۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس کی فورسز نوجوانوں پر بہیمانہ تشدد کر رہی ہیں جبکہ وادی میں جان بچانے والی ادویات اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو چکی ہے۔
انھوں نے انڈیا پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی میڈیا کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں رسائی دے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انڈیا نے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی تمام پیشکش مسترد کی ہیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پیلٹ گنز کے استعمال سے کشمیر کے نوجوان اپنی بینائی گنوا رہے ہیں جبکہ زخمی ہونے پر وہ ہسپتال جانے سے بھی گھبراتے ہیں کہ کہیں انھیں انڈین فورسز گرفتار نہ کر لیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ قرونِ وسطیٰ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ یہ ظلم و ستم 21 ویں صدی میں ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے انڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار اور سلامتی کونسل کی مستقل رکن بننے کی خواہش رکھنے والی مملکت کا اصل چہرہ ہے۔‘
انڈیا کشمیر کی بندشوں میں نرمی لائے: اقوامِ متحدہ
اس سے پہلے پیر کو اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے عالمی سیشن میں کشمیر کا ذکر اس وقت ہوا جب ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے انڈیا کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ انڈیا کشمیر میں کرفیو اور بندشوں کے سلسلے میں میں نرمی لائے۔
انسانی حقوق کی کونسل کے 42ویں عالمی سیشن کے دوران کشمیر پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میچیل بیچیلیٹ نے کہا ہے کہ 'میرے دفتر کو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف پر انسانی حقوق سے متعلق صورتحال پر معلومات ملتی رہتی ہیں۔'
میچیل بیچیلیٹ نے پاکستان اور انڈیا دونوں کی حکومتوں پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے زور دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'میں نے انڈیا سے مطالبہ کیا ہے کہ (کشمیر میں) موجودہ لاک ڈاؤن اور کرفیو میں نرمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو بنیادی سہولتیں مل سکیں۔'
یہ بھی پڑھیے
'مجھے انڈین حکومت کے حالیہ اقدامات پر شدید تشویش ہے جس سے کشمیریوں کے انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں، جیسے کہ انٹرنیٹ، مواصلاتی نظام اور لوگوں کے پرامن طریقے سے اکٹھے ہونے پر پابندی عائد ہے اور مقامی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔'
انھوں نے کشمیر میں زیر حراست لوگوں کو اپنے دفاع کا حق دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
'یہ اہم ہے کہ ایسی فیصلہ سازی میں کشمیریوں کی رائے لی جائے جس سے ان کا مستقبل جڑا ہے۔'
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر کے بیان کے ردعمل میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ وہ کشمیر پر عالمی برادری کے مطالبات اور تشویش کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
عمران خان نے کہا ’عالمی برادری کو کشمیر میں انڈین فوسسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لاتعلقی نہیں دکھانی چاہیے۔‘
وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی کونسل کی دو رپورٹس کی روشنی میں کشمیر پر ایک تحقیقاتی کمشن بنائی جائے۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر کے بیان میں انڈیا کا ذکر ایک دوسرے مسئلے پر بھی ہوا۔
انڈیا کی ریاست آسام میں 19 لاکھ لوگوں کی شہریت کی معطلی پر ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے انڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان لوگوں کو قید یا جلاوطن نہ کیا جائے اور ان کے لیے باقاعدہ لائحۂ عمل تیار کیا جائے تاکہ یہ لوگ شہریت کی محرومی سے بچ سکیں۔
پروگرام میں ایک خصوصی خط بھی شامل کیا گیا جو ایک کشمیری طالب علم فیضان بخاری نے انڈیا میں خلائی تحقیق کے ادارے آئی ایس آر او (اسرو) کے چیف کے سیون کے نام لکھا۔
خط میں کے سیون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’میں آپ کا درد سمجھ سکتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ رابطہ منقطع ہونے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔‘
سنیچر کو انڈیا کے خلائی مشن کو اس وقت دھچکا پہنچا تھا جب ان کی چاند گاڑی وکرم لینڈر کا چاند کی سطح سے 2.1 کلومیٹر رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ اس موقع پر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے خلائی ادارے کے چیف کو دلاسا دیا تھا اور ان کی ٹیم کی تعریف کی تھی۔
مواصلاتی نظام کی بندش کے باعث انڈیا میں زیرِ تعلیم کشمیری طلبہ بھی کئی ہفتوں سے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کر سکے۔