انڈیا الیکشن: کیا بی جے پی کے دعوے سچ ثابت ہوں گے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, آدیتی فڈنیس
- عہدہ, سینیئر صحافی، انڈیا
انڈیا کے پارلیمانی انتخابات میں 19 مئی کو ساتویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ ختم ہوتے ہیں ملکی ذرائع ابلاغ نے اپنے اپنے ایگزٹ پولز جاری کر دیے ہیں۔
اگر یہ ایگزٹ پول حقیقت میں تبدیل ہوتے ہیں تو پھر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں اتحاد یعنی این ڈی اے دوبارہ اقتدار میں واپس آ سکتا ہے۔
ان ایگزٹ پولز کے مطابق این ڈی اے 300 نشستیں حاصل کر سکتا ہے جبکہ انڈیا میں حکومت سازی کے لیے 273 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان ایگزٹ پولز کے رجحان سے قطع نظر اگر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے بل بوتے پر ہی 300 سے زائد نشستیں حاصل کرنے کا دعوی کر رہی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں اسے 74 سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔ خیال رہے کہ سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی اتحاد کو 73 نشستیں ملی تھیں۔
تاہم اب تک ایسا کوئی ایگزٹ پول نہیں آیا جو اترپردیش میں بی جے پی کو 74 اور پورے ملک میں 300 سے زائد نشستیں دے رہا ہو۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ایگزٹ پولز میں بی جے پی کو زیادہ نشستیں دی جا رہی ہیں حالانکہ اس بار دوسری جماعتوں کے حالات گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔
بظاہر انڈیا میں این ڈی اے کی حکومت بنتی نظر آ رہی ہے لیکن بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کہیں کانگریس کے اتحاد میں علاقائی پارٹیوں کا پلڑا بھاری نہ پر جائے۔ ایسے میں بی جے پی اور کانگریس دونوں اس جوڑ توڑ میں ہوں گے کہ کس طرح ان غیر اتحادیوں کو اپنے اتحاد میں شامل کیا جائے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کانگریس کے صدر راہل گاندھی کا دعوی کہ نریندر مودی کی حکومت اقتدار میں واپس نہیں آئے گی غلط ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بیشتر ایگزٹ پولز میں تو بی جے پی ہی فتح یاب نظر آ رہی ہے البتہ بعض ایگزٹ پول یہ بتاتے ہیں کہ کانگریس اور علاقائی جماعتیں نریندر مودی کی راہیں مشکل بنا سکتی ہیں۔
بی جے پی کس کی طرف نظر کرے گی؟
اگر این ڈی کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو وہ تلنگانہ کی ٹی آر ایس اور جگن موہن ریڈی کی طرف ہاتھ بڑھا سکتی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ آئيے، ہم آپ کا احترام کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ انتخابات کے آخری مرحلے پر وزیراعظم کی موجودگی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں بی جے پی کے پارٹی صدر امت شاہ نے کہا تھا کہ ہم ان کا خیر مقدم کریں گے جو ہماری نظریاتی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ بظاہر بی جے پی اب اپنے تمام دروازے اور کھڑکیاں کھولتی نظر آتی ہے۔
اب اس حکمت عملی پر کام شروع ہوگا کہ کس طرح کانگریس کے اتحادیوں کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کیا جائے۔
کوئی بھی ایگزٹ پول کانگریس کو تنہا 100 نشستیں نہیں دے رہا ہے۔ بہرحال 2014 میں 44 نشستوںتک محدود رہنے والی کانگریس اس بار نسبتاً بہتر حالت میں ہے۔
ان اعدادوشمار سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ کانگریس کے کسی خیمے سے یہ آواز اٹھے گی کہ راہل کی قیادت بری تھی البتہ پرینکا گاندھی سے جتنی امیدیں وابستہ تھیں ان کے کھل کر سامنے نہ آنے سے وہ امیدیں پوری نہ ہو سکیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا پرینکا کا میدان میں اتارنا ناکام رہا؟
پرینکا گاندھی کو مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن ایگزٹ پول کے مطابق گذشتہ انتخابات کی طرح یہاں کانگریس کی حالت جوں کی توں نظر آ رہی ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے لوگ کانگریس کی نیائے (انصاف) سکیم کے بارے میں پراعتماد نہیں تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی مقامات پر کانگریس تنظیمی سطح پر مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
اترپردیش میں کانگریس کا تنہا انتخابی میدان میں اترنا ان کا صحیح فیصلہ تھا۔ اگر آپ بار بار مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی اور اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی کے سامنے جھکیں گے تو یہ کانگریس کیڈر کے لیے اچھا نہیں ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر کانگریس 44 سیٹ سے بڑھ کر سروے میں 80 تک پہنچ رہی ہے تو یہ اس کے لیے اچھی خبر ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے عہدے کی دعویدار کانگریس کو ابھی بہت محنت کرنی پڑے گی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کانگریس نے اتحادیوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار نہیں کیا یہ کہنا درست نہیں کیونکہ کانگریس واقعی ایک قومی پارٹی ہے اور لوگ کشمیر سے کنیا کماری تک اسے جانتے ہیں اور اسے قومی جماعت کے طور پر برتاؤ کرنے کا حق حاصل ہے۔
بی جے پی اور ممتا کی جنگ سے کسے فائدہ؟
مغربی بنگال کے ایگزٹ پول میں بی جے پی دوہرے ہندسوں میں نشستیں حاصل کرتی نظر آ رہی ہے۔ بی جے پی جس طرح وہاں محنت کر رہی تھی اس سے ممتا کی پارٹی ترنمول کے کارکنوں بھی پریشان تھے۔ بی جے پی نے کہا تھا کہ ترنمول کے 10 سے 15 افراد بی جے پی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ بنگال میں ریاستی اسمبلی انتخابات بھی نزدیک ہیں ایسے یہ سرگرمیاں معنی خیز ہیں۔ لیکن ترنمول بھی چپ بیٹھنے والی نہیں۔ آنے والے دنوں میں، بی جے پی اور ترنمول کے درمیان تلخی بڑھ جائے گی۔
تیسرے فرنٹ کا چہرہ کون ہوگا یہ انتخاب کے نتائج آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن اگر کانگریس کے پاس اتنی نشستیں آئیں کہ وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر دعویٰ کر سکے تو وہ حکومت سازی کا دعویٰ ضرور کرے گی۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اگر بی جے پی ان جماعتوں کے نخرے اٹھانے کو تیار ہوجائے اور بڑے بڑے وعدے کرے تو یہ پارٹیاں ان کے ساتھ جا سکتی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امت شاہ اور نریندر مودی نے تلنگانہ میں اپنی ریلیوں میں ٹی آر ایس پر حملہ نہیں کیا بلکہ کانگریس کو نشانہ بناتی رہی۔ اسی طرح آندھر میں وائی ایس آر کے بجائے ٹی ڈی پی نشانے پر رہی۔
انتخابی مہم میں ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ کس کا ہاتھ تھامنے کو تیار ہیں۔
مشرقی ساحلی ریاست اڑیسہ میں بی جے پی نے وہاں برسراقتدار پارٹی اور اس کے رہنما کو نشانہ بنایا لیکن جب فانی طوفان آیا تو وزیر اعظم مودی نے نوین پٹنائیک کی تعریف بھی کی جس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ایک ساتھ آ سکتے ہیں۔
تمل ناڈو میں جو چھ سات سیٹیں ملتی نظر آ رہی ہیں وہ بی جے پی کی اتحادی جماعت اے آئی اے ڈی ایم کے کی سیٹیں ہیں اور اس پارٹی کے لیے اتنا حاصل کرنا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں کانگریس مضبوط نظر آ رہی ہے۔










