غزنی پر طالبان کے حملے کا آنکھوں دیکھا حال بی بی سی کے نامہ نگار کی زبانی

غزنی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنطالبان نے شہر میں بیشتر عمارتوں کو آگ لگا دی
    • مصنف, اسد الله جلال زئی
    • عہدہ, بی بی سی پشتو

شہر کی خاموشی آدھی رات کو تقریباً بارہ ساڑھے بارہ بجے شدید اور بھاری گولہ باری کی آواز سے ٹوٹی۔ یہ اگلے دن 11 بجے تک جاری رہی۔ کچھ دیر کو سکون ہوا۔ مقامی لوگ شہر کے مختلف حصوں سے سیاہ دھواں اٹھتا دیکھ سکتے تھے۔ شہر کے ’ترک ٹاپا‘ نامی پہاڑ پر ٹیلی کمیونیکیشن کے زیادہ تر ٹاور لگے تھے۔ وہ اب وہاں نہیں تھے ان سب کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھا جا سکتا تھا۔

طالبان جنگجوؤں نے عمارتوں کو بھی آگ لگائی۔ اس کا مطلب تھا کہ وقتی طور پر وہاں تمام تر میڈیا بند ہو چکا تھا۔ باہر کی دنیا نہیں جانتی تھی کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ ہم مقامی لوگ نہیں جانتے تھے کہ آیا کوئی مدد بھی آ رہی ہے یا نہیں۔

ہماری مشکلات اس وقت بڑھ گئیں جب شہر میں پانی کی ترسیل کا نظام بھی تباہ ہو گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ پانچ ہزار خاندان پینے کے پانی سے محروم ہو گئے تھے۔

میں نے دیکھا کہ پہاڑی کے پاس ایک فوجی گاڑی الٹی پڑی ہے جس میں پانچ لاشیں اس وقت بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ یہ سب افغان فوجی تھے۔ شہر کی دوسری جگہوں پر بھی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ ان کی فوجی وردیاں دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ فوجی تھے لیکن قریب سے جانچ کرنے پر خاص طور پر ان کے لمبے بال اور داڑھیاں دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ دراصل طالبان جنگجو تھے۔ انھوں نے شہر میں داخل ہونے کے لیے فوجی وردیوں کا استعمال کیا۔

دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ مواصلاتی نظام اب تک بند تھا۔ شہر کے شمالی پہاڑ سے دھواں اٹھنے لگا۔ جلد ہی پھر سے شدید لڑائی شروع ہو گئی۔ اب جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر شہر کے اوپر چکر لگاتے دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ لمحوں بعد دو ہیلی کاپٹر شہر کے مشرق میں واقع پولیس کے تربیتی مرکز میں اترے۔ تیسرے نے بھی اترنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا یہ لہراتا ہوا زمین پر گر گیا۔

اب شہر کے مشرقی حصے میں بھی دھواں پھیل گیا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا اس ہیلی کاپٹر کی تباہی میں کتنے لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد جو عمارتیں آگ کا نشانہ بنیں وہ غزنی شہر کے مرکز کی دکانیں اور عمارتیں تھیں۔ وہاں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مقامی ہسپتال میں 16 لاشیں لائی گئیں جن میں سے چھ عام شہری تھے۔ تیس افراد زخمی بھی ہوئے۔

سورج مغرب کی جانب پہاڑوں میں غروب ہو رہا تھا۔ سیاہ دھوئیں نے یوں بھی سارے شہر کی فضا کو ڈھانپ رکھا تھا۔ لڑائی اب بھی جاری تھی۔ مقامی لوگ گھروں میں مقید تھے۔ کئی لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اصل میں ہو کیا رہا تھا۔ انھہیں لگتا تھا کہ لڑائی صرف ان کی گلی میں ہو رہی ہے۔ حقیقت تو یہ تھی کہ طالبان نے غزنی شہر پر چاروں طرف سے حملہ کیا تھا۔

پہلے دن شہر کے ہر حصے میں شدید لڑائی ہوتی رہی۔ رات بھر ہم نے ہلکی پھلکی گولہ باری اور فضا میں ہیلی کاپٹروں کی آوازیں سنتے گزاری۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے ساتھ والے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ گھر سے نکلنا بہت خطرناک تھا۔

غزنی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنغزنی شہر پر چھائے دھوئیں کے بادل

صبح ہونے لگی تو شہر کے مغرب اور شمال میں جھڑپیں پھر سے شدید ہو گئیں۔ طالبان جنگجو اب شہر کے اندر تھے، بالکل شہر کے وسط میں۔ انھوں نے سینیما چوک میں موجود پولیس کے تربیتی مرکز کو آگ لگا دی۔ جنگجوؤں کا ایک اور گروپ ٹوٹے ہوئے پل پر مشین گنز اور راکٹ لانچرز لیے کھڑا تھا۔

فوجی بھی ان سے زیادہ دور نہیں تھے وہ سبز مسجد کے بالکل پیچھے اپنی بندوقوں کے ٹریگرز پر انگلیاں جمائے مستعد کھڑے تھے۔ فریقین کے درمیان فاصلہ 100 میٹرسے زیادہ نہیں تھا۔ جونہی طالبان یا فوجیوں میں سے کوئی ایک دیوار سے ذرا آگے نکلا تو گولیاں چلنی شروع ہو گئیں۔ اور اس سب کے دوران گولیوں سے بچنے سر کو جھکائے مقامی لوگ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگے۔ اور جلد ہی ایک اور بری خبر ملی۔ شہر میں بجلی کی فراہمی بند ہو گئی۔

سہ پہر ہو چکی تھی۔ مقامی ہسپتال زخمیوں سے بھر چکا تھا۔ یہ لوگ سینکڑوں میں تھے۔ میں نے درجنوں لاشوں کو ایک دوسرے پر پڑے دیکھا۔ تب ایک اور ایمولینس زخمیوں کو لے کر آئی۔ ڈرائیور نے بتایا کے آنے والے طالبان جنگجو ہیں۔ اس کلینک کے مالک نے کہا کہ انہیں کہیں اور لے جائیں۔

’ہمارے پاس یہاں زخمی پولیس اہلکار ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ ہسپتال کے اندر لڑنا شروع کر دیں۔‘ چھ ڈاکٹرز مریضں کی دیکھ بھال کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک باز محمد نے مجھے بتایا ’ہمارے پاس دوائیں ختم ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کے ہم ابتدائی طبی امداد بھی نہیں دے سکتے۔‘

غزنی

،تصویر کا ذریعہReuters

لڑائی اب بھی جاری تھی۔ شہر کے دوسرے ہسپتال بھی زخمیوں کو امداد دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ساری افرا تفری کے درمیان کئی لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ان میں سے ایک غلام ثنائی نے مجھے بتایا ’میرے بھائی کی شہر میں دکان ہے۔ اس کا صبح سے کچھ پتا نہیں۔ میں ایک ہسپتال سے دوسرے میں جا رہا ہوں۔ پورا دن گزر گیا۔‘

اب شہر کے ہوائی اڈے سے بھی شعلے اور دھواں بلند ہو رہا تھا۔ غزنی کو حال ہی میں اسلامی تہذیب کا دارالحکومت قرار دیا گیا تھا۔ انھوں نے ہوائی اڈے کے قریب اس اعزاز کی یادگار بنائی تھی۔ اسے بھی نذرِ آتش کر دیا گیا۔ لوگوں کے پاس خوراک ختم ہو رہی تھی۔ اس وقت شہر میں صرف دو بیکریاں تھیں جو کھلی تھیں۔ ایک روٹی 50 سے 60 افغانی میں مل رہی تھی جو دو دن پہلے صرف 10 کی تھی۔

لڑائی تیسرے دن بھی جاری رہی۔ لوگ اب بھی ہسپتالوں اور کلینکس میں اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے تھے۔ راہداریاں لاشوں سے بھری پڑی تھیں۔ لوگ سسک رہے تھے کچھ چلّا رہے تھے۔ میں اس مکمل افراتفری کے عالم کو فراموش نہیں کر سکتا جب میں نے شہر چھوڑا۔

شام ہو چکی تھی اور چیزیں سیاہ پڑ چکی تھیں۔ میں نے شہر کے شمال میں چار فوجی گاڑیاں دیکھیں۔ ان کے گرد متعدد سکیورٹی اہلکار کھڑے تھے۔ وہ شہر سے نکلنے والوں کو روک کر ان سے سوال کر رہے تھے۔ مجھے بھی روکا گیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں شہر کے باہر ایک گاؤں میں جا رہا ہوں۔ انھوں نے ہمیں جانا دیا۔

غزنی

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنغزنی کے ہسپتالوں کی راہداریاں لاشوں سے بھری تھیں

کچھ دیر بعد ہم کابل کے لیے نکل آئے۔ جب ہم وردک صوبے کے سید آباد علاقے میں پہچنے تو طالبان نے ہماری گاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔ ہمارے ڈرائیور نے گاڑی موڑی اور رفتار بڑھا دی۔ کئی دیہاتوں سے گزر کر ہم بالآخر میدان شار پہنچ گئے۔ اب ہم خطرے سے باہر تھے۔ کچھ گھنٹوں بعد میں کابل مںی بی بی سی کے دفتر میں تھا۔