آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
کشمیر: جہاں مدہوش کی شاعری راکھ ہو گئی
- مصنف, ریاض مسرور
- عہدہ, بی بی سی اردو ، سری نگر
پانچ ماہ سے ایک نہایت چھوٹے کمرے میں دو بچوں اور بیوی کے ساتھ گزر بسر کرنے والے گوشہ نشین شاعر مدہوش بالہامی کہتے ہیں ’ایسی نہیں ہے بات کہ قد اپنے گھٹ گئے، چادر کو اپنی دیکھ کر ہم ہی سمٹ گئے۔‘
مدہوش ضلع پلوامہ کے بالہامہ نامی گاؤں میں رہتے ہیں، پیشے سے کسان ہیں لیکن بیس سال سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے حالات کی عکاسی وہ اپنی شاعری کے ذریعہ کرتے آئے ہیں۔
مدہوش کہتے ہیں گذشتہ مارچ میں فوج جب تین مسلح شدت پسندوں کا تعاقب کررہی تھی تو وہ تینوں ان کے گھر میں داخل ہوگئے جس کے بعد فوج نے محاصرہ کیا اور 12 گھنٹوں کے تصادم کے بعد مکان کو گیسولین چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔
مدہوش بالہامی کو غم صرف اس بات کا نہیں کہ ان کا مسکن لُٹ گیا، وہ اس بات سے زیادہ افسردہ ہیں کہ ان کی شاعری راکھ ہو گئی۔ ’میں نے سرکار کی خوشنودی یا خود نمائی کے لیے نہیں لکھا، یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنا کلام پبلش نہیں کیا، یہ سب میری الماری میں تھا، لیکن میرا یہ سرمایہ راکھ ہو گیا۔‘
یہ پوچھنے پر کہ کیا وہ اپنے حافظے کی مدد سے وہ کلام دوبارہ لکھ پائیں گے، مدہوش کہتے ہیں: ’شاعری وہ چیز ہے جو دوبارہ نہیں لکھی جاتی ہے۔ البتہ مجھے کئی نظموں کے پہلے اشعار یاد ہیں اور کوشش کررہا ہوں کہ ایسی نظمیں دوبارہ محفوظ کرلوں۔‘ مدہوش کشمیر کی مزاحمتی صورتحال پر لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’کب تک تجھے روندے گا سامراج بے ضمیر، اک دن سنور ہی جائے گی بگڑی ہوئی تقدیر، اے وادی کشمیر۔۔۔۔‘ آج کل مدہوش کے رشتہ دار گھر بنانے میں ان کی مدد کررہے ہیں۔ انہیں حکومت یا سماجی حلقوں کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملی۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی انجمنوں کے اتحاد، کولیشن آف سول سوسائیٹیز کے سربراہ پرویز امروز کہتے ہیں کہ مسلح شدت پسندوں کے خلاف آپریشنوں کے دوران عوامی املاک کو تباہ کرنے کا مقصد آبادی کو اجتماعی طور سزا دینا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’اگر بھارت نے یہ سب اسرائیل سے سیکھا ہے تو بھارتی قیادت کو جان لینا چاہیے کہ فلسطین میں بھی یہ طریقہ کامیاب نہیں ہو سکا، وہاں کی مزاحمت دب نہ سکی۔‘
رہائشی مکانوں کو مسلح تصادم کے دوران بارود سے اُڑانا یا گن پاؤڈر چھڑک کر خاکستر کرنا اب فوج کی انسدادی کارروائیوں کے دوران ایک معمول بن چکا ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران ایسی کارروائیوں میں اب تک درجنوں مکان زمین بوس ہوگئے یا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
تاہم سی آر پی ایف کے سپیشل ڈی جی پربھات سنگھ کہتے ہیں: ’ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی پالیسی ہے، البتہ تصادم کے دوران کبھی کبھی آپریشن کی ضرورت کے مدنظر ایسا ہو جاتا ہے۔‘