پاورٹی پورن قرار دی گئی تصاویر شائع کرنے پر سخت تنقید

،تصویر کا ذریعہWorld Press Photo/Instagram
انڈیا میں بھوک کے بارے میں ایک اطالوی فوٹو گرافر کی سیریز پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے، بہت سے افراد نے ان تصاویر کو غریبوں کا استحصال کہا اور انہیں پاورٹی پورن قرار دیا۔
الیسیو مامو نے غریبوں کو ایک میز کے سامنے کھڑا کر کے اُن کی تصویریں لیں۔ تصاویر میں موجود افراد نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہے جبکہ میز پر کھانے پینے کی اشیا رکھی ہیں جو مصنوعی ہیں۔
اِن تصاویر کو ایسی دو انڈین ریاستوں میں کھینچا گیا جہاں لوگوں میں غذائی قلت کی شرح زیادہ ہے۔
ڈریمنگ فوڈ کے عنوان کے تحت لی گئی یہ تصاویر 2011 میں کھینچی گئیں تھیں اور ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شائع ہونے کے بعد وائرل ہوئیں۔
اس سلسلے کے کیپشن کے طور پر الیسیو مامو نے لکھا کہ انھوں نے 'لوگوں کو بتایا کہ وہ اُن کھانوں کے بارے میں خواب دیکھیں جنہیں وہ اپنی میز پر دیکھنا چاہتے ہیں'۔ انھوں نے اسے انڈیا میں بھوک کے مسئلے کے بارے میں تصوراتی منصوبے کے طور پر پیش کیا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Instagram کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Instagram ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
Instagram پوسٹ کا اختتام
ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ کا کنٹرول الیسیو مامو کو دیا جس کے بعد انھوں نے اِن تصاویر کو پوسٹ کیا ۔ ادارہ اکثر مختلف فوٹوگرافرز کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ چلانے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ واضع نہیں کہ الیسیو مامو نے جو تصاویر شائع کیں وہ ادارے کی نظروں سے گزری تھیں کہ نہیں۔ سماجی میڈیا پر بہت سے لوگ دونوں ہی کو ایسی تصاویر شائع کرنے کے لیے ذمہ دار ٹھرا رہے ہیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 1
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 2
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 3
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 4
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 5
شدید ردعمل کے مدنظر، ورلڈ پریس فوٹو فاؤنڈیشن نے ایک بیان میں کہا کہ 'فوٹوگرافر ہی دراصل اپنا کام منتخب کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں'۔بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ 'انہیں صرف عمومی ہدایات دی جاتی ہیں جن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔'
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
بی بی سی نے الیسیو مامو سے رابطہ کیا لیکن اُنھوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک عرصے سے غربت اور بھوک انڈیا کے بڑے مسائل میں شامل رہے ہیں۔ دنیا میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی سب سے بڑی تعداد انڈیا ہی میں ہے۔
بھوک کے بارے میں عالمی اعداد وشمار گلوبل ہنگر انڈیکس میں انڈیا درجہ بندی کے حساب سے مسلسل نیچے رہا ہے۔ گذشتہ برس 119 ترقی پذیر ممالک میں انڈیا 100ویں نمبر پر تھا۔








