آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
'اب تو ظلم روکنے کے لیے ابابیلیں بھی نہیں آتی ہیں‘
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک روانڈا کی آبادی دو نسلی قبیلوں پر مشتمل ہے۔ ہوتو جو اکثریت میں ہیں اور توتسی جو تعداد میں ان سے کم ہیں۔ توتسیوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ صدیوں کے مائیگریشن میں شمالی افریقہ بالخصوص ایتھیوپیا سے یہاں آ کر آباد ہوئے۔
گذشتہ صدی میں جب روانڈا بیلجیم کی نوآبادی تھا اس وقت نوآبادکاروں نے ہوتوؤں کو نظر انداز کیا اور توتسی قیبلے کے لوگوں کو تعلیم اور اقتصادی معاملات میں آگے بڑھایا۔ ملک جب آزاد ہوا تو توتسی قبیلے اور ہوتوؤں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہو چکی تھی۔
رفتہ رفتہ یہ خلیج نفرتوں میں بدلنے لگی۔ ہوتو چونکہ اکثریت میں تھے اس لیے ملک میں اکثریت والی جماعت اقتدار میں آ گئی۔ ملک کے ہر مسئلے کے لیے توتسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ ہوتو اور توتسیوں میں ہر جگہ ٹکراؤ شروع ہو گیا۔ حالات اتنے خراب ہو گئے کہ توتسیوں نے ایک باغی تنظیم بنا لی جو پڑوسی ملک برونڈی سے روانڈا پر حملہ کرتی۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
اس نسلی ٹکراؤ نے اس وقت ایک بدترین خونریزی کی شکل اختیار کر لی جب اپریل سنہ 1994 میں ملک کے صدر کے طیارے کو کسی نے مار گرایا۔ ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ اس طیارے کو کس نے گرایا؟ لیکن اس کا الزام توتسی باغیوں پر لگایا گیا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
روانڈا کی فوج نے توتسی نسل کے شہریوں کے خلاف پورے ملک میں جنگ چھیڑ دی۔ فوج نے ریڈیو پیغامات کے ذریعے توتسی نسل کے لوگوں کو مارنے اور ان کی زمینوں اور املاک پر قبضہ کرنے کے لیے ہوتوؤں کو اکسانا اور مجبور کرنا شروع کر دیا۔
اپریل سنہ 1994 سے جون تک محض 100 دنوں کے اندر آٹھ لاکھ سے زیادہ توتسی اور اعتدال پسندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دنیا کی تاریخ میں تین مہینے کے اندر اتنی بڑی نسل کشی شاید ہی پہلے کبھی رونما ہوئی ہوئی ہو۔
بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کی مداخلت سے خانہ جنگی تو ختم ہو گئی لیکن نفرتیں ختم نہ ہو سکیں اور آنے والے برسوں میں دونوں جانب سے لاکھوں افراد مارے گئے تاہم دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔
حالیہ برسوں میں کئی ملک دیکھتے ہی دیکھتے تباہ کر دیے گئے۔ عراق، شام، یمن اور لیبیا میں لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ عراق اور شام صرف ملک ہی نہیں قدیم ترین انسانی تہزیب کا نمونہ ہیں۔ آج ان ممالک میں لاکھوں افراد در بدر بھٹک رہے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر اور بے وطن ہو چکے ہیں۔ ان ممالک میں اتنی بڑی تباہی ہوئی ہے کہ انھیں سنبھلنے میں شاید کئی نسلیں گزر جائیں۔
برما میں بھی کچھ ایسے ہی حالات بن چکے ہیں۔ گذشتہ چند مہینوں میں سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا نسل کے لوگوں نے بنگہ دیش میں پناہ لی ہے۔ روہنگیا صدیوں سے برما میں آباد ہیں لیکن انھیں وہاں شہریت نہیں دی گئی۔
انھیں اپنے ہی علاقوں میں پناہ گزین کیمپ جیسی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ انھیں تعلیم، صحت، زمین کی ملکیت اور ہر طرح کے حقوق سے محروم رکھا گیا اور اب انھیں ان کی آبادیوں سے بھی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ کسی کو برما کے رخائن خطے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ نے روہنگیا کے بحران کو منظم نسل کشی قرار دیا ہے لیکن اقوام متحدہ کو بھی روہنگیا پر ہونے والے مظالم کی تحقیقات کی اجازت نہیں ہے۔ بنگلہ دیش عملی طور پر اکیلے ہی لاکھوں پناہ گزینوں کا بار سنبھالے ہوئے ہے۔ چین اور انڈیا جیسے ممالک برما کی حکومت کے ساتھ ہیں۔
انڈیا کی ریاست آسام میں بھی آئندہ چند مہینوں میں شہریت کا بہت بڑا تنازع پیدا ہونے والا ہے۔ آنے والے مہینوں میں یہاں لاکھوں بنگالی نسل کے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر کے بے ذخل کیے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ریاست کی 30 فیصد سے زیادہ آبادی بنگالی بولنے والوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ 150 برس کے دوران بنگال اور تقسیم سے پہلے بنگلہ دیش کے علاقے سے یہا ں آ کر آباد ہوئے۔ ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو غیر قانونی طریقے سے بنگلہ دیش سے یہاں آکر آباد ہوئے۔
ریاستی حکومت ریاست کے ہر شہری کی شہریت کے ثبوت کی جانچ کر رہی ہے۔ تین کروڑ، 30 لاکھ درخواستوں میں سے تقریباً دو کروڑ شہریوں کی فہرست جاری ہو چکی ہے۔ دوسری اور حتمی فہرست تیاری کے مراحل میں ہے۔
بعض رپورٹوں کے مطابق ان میں 30 لاکھ سے زیادہ ایسے شہری ہیں جنھیں مشتبہ زمرے میں رکھا گیا ہے۔ انڈین میڈیا اس ابھرتے ہوئے ممکنہ انسانی بحران پر پوری طرح خاموش ہے۔
ایک وقت تھا جب انسانی بحرانوں، جنگ اور مظالم کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے اور احتجاج ہوتے تھے۔ لوگ اپنے ضمیر اور انسانی جذبوں کی بنیاد پر اپنی آواز اٹھاتے تھے۔ آج انسانیت خود بحران کی گرفت میں ہے۔
کچھ دنوں پہلے روہنگیا کی حمایت میں ہونے والیے ایک جلسے میں اسی انسانی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے ایک مقرر نے کہا تھا کہ ’اب تو ظلم روکنے کے لیے ابابیلیں بھی نہیں آتی ہیں۔‘