آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
انڈیا: سپریم کورٹ ہم جنس پرستی سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرے گی
- مصنف, سہیل حلیم
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
انڈیا کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے گی جس کے تحت اس نے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے میں شامل کرنے والے قانون کو آئین کی روشنی میں درست قرار دیا تھا۔
انڈیا میں تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا گیا ہے لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا دیرینہ الزام ہے کہ پولیس یہ شق ہم جنس پرستوں کو پریشان کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
عدالت نے نظرثانی کا فیصلہ پانچ ہم جنس پرستوں کی درخواست پر کیا ہے جن کا کہنا تھا کہ وہ خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سنہ 2009 میں دلی ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں کہا تھا کہ دو بالغ اگر اپنی مرضی سے کوئی رشتہ قائم کرتے ہیں تو اسے جرم نہیں کہا جاسکتا لیکن چار سال بعد سنہ 2013 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اس فیصلے پر نظرثانی کی ایک پٹیشن بھی عدالت میں زیر التوا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
درخواست گزار کے وکیل آنند گروور کے مطابق ایک وسیع تر بینچ تمام درخواستوں کو یکجا کرکے ان کی سماعت کرے گا اور دفعہ 377 کو آئین کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ اکتوبر تک آنے کی امید ہے کیونکہ موجودہ چیف جسٹس اکتوبر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔
عدالت نے کہا کہ عوام کا کوئی حلقہ یا کچھ لوگ صرف اس وجہ سے خوف میں زندگی نہیں گزار سکتے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق رہنا چاہتے ہیں۔ نہ ان کی پسند قانون کی حدود کو پار سکتی ہے اور نہ قانون، آئین کی دفعہ 21 کےتحت انھیں حاصل اختیارات کو صلب کرسکتا ہے۔
اس سے پہلے گذشتہ برس اگست میں بھی سپریم کورٹ نے 'پرائیویسی' کے سوال پر ایک انتہائی اہم فیصلے میں کہا تھا کہ 'سیکس کے معاملے میں پسند ناپسند لوگوں کا نجی معاملہ ہے۔۔۔'
عدالت کے اس فیصلے کے بعد یہ امید دوبارہ جاگی تھی کہ ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکالنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے کہا تھا کہ دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکال کر غلطی کی تھی۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کو ہندو، عیسائی اور مسلم مذہبی تنظیموں نے چیلنج کیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ ہم جنس پرستی غیر فطری عمل ہے اور اسے جرم کے زمرے میں ہی شامل رہنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے سنہ 2013 کے فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور غیر معمولی طور پر کانگریس کی اعلی ترین قیادت، اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے بھی کھل کر اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
اس وقت کے وزیر قانون کپل سبل نے کہا تھا کہ اکیسویں صدی میں اس قانون کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
لیکن اب ملک میں بی جے پی کی حکومت ہے جس کے بہت سے سینیئر رہنما ہم جنس پرستی کو غیر فطری عمل مانتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے بھی اس کا موقف معلوم کیا ہے۔