جنوبی ایشیا کے موجودہ نقشے کا ذمہ دار کون؟

،تصویر کا ذریعہHulton Archive
- مصنف, عاشق احمد اقبال
- عہدہ, تاریخ دان، آکسفورڈ یونیورسٹی
کشمیر میں جب جنگ چھڑی رائل انڈین ایئرفورس اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔ جب 22 اکتوبر 1947 کو حکومت پاکستان کے حمایت یافتہ قبائلی کشمیر میں داخل ہونا شروع ہوئے، اس وقت رائل انڈین ایئر فورس، بٹوارے کے بعد، برطانوی راج سے ملنے والی مسلح افواج کی پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم کے مشکل مرحلے سے گزر رہی تھی۔
پاکستانی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ بنیہال سے گزرتی ہوئی پنجاب اور کشمیر کو ملانے والی واحد سڑک سردیوں کی وجہ سے قابل استعمال نہیں ہو گی اور انڈیا کی طرف سے مداخلت کا امکان نہیں ہو گا۔
اس کے علاوہ انڈیا کی حکومت کو اس بات کا بھی خیال کرنا پڑے گا کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ اس وقت تک کسی بھی ایک ملک کا حصہ بننے سے انکار کر رہے تھے۔ پاکستانی حکام نے انڈیا کی طرف سے فضائی حملے کے امکان پر بھی غور نہیں کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
کشمیر میں قبائلی حملے پر انڈیا کا رد عمل فوری تھا۔ ریاستوں کی وزارت کے سیکریٹری وی پی مینن کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق پر بات چیت کے لیے 25 اکتوبر کو کشمیر پہنچے۔ اسی دن انڈین فوجیوں کو کشمیر پہنچانے کے لیے ایئر چیف مارشل تھامس ارلہرسٹ کی قیادت میں 'آرمی ایئر لِفٹ' بنائی گئی۔ فضائیہ نے جبل پور سے اسلحہ نئی دلی پہنچانا شروع کیا۔
ملک کے وزیر داخلہ ولبھائی پٹیل نے آل انڈیا ریڈیو پر ایک ہنگامی براڈکاسٹ میں سویلین طیاروں کو بھی اس کارروائی میں حصہ لینے کا حکم دیا اور 25 سویلین طیارے اس کام میں لگ گئے۔

ان تمام ہنگامی اقدامات کے باوجود گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور انڈین ملٹری کے برطانوی چیف آف سٹاف زیادہ پر امید نہیں تھے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ان کا خیال تھا کہ فوجیوں اور سامان سے لدے ہوئے طیاروں کو 9300 فٹ بلند پہاڑوں کے اوپر سے ہوتے ہوئے ایسی پٹی پر لینڈ کرنا ہوگا جو چھوٹے جہازوں کے لیے تیار کی گئی تھی۔
فرسٹ سکھ بٹالین 27 اکتوبر کو کشمیر میں اتری۔ اس کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل رنجیت رائے کو حکم ملا کہ وہ پہلے چکر لگا کر تسلی کریں کہ سرینگر میں لینڈنگ کی جگہ قبائلوں کے قبضے میں تو نہیں۔ اگلے تین ہفتوں میں انڈین طیاروں کی 750 پروازوں میں 13 ملین پاؤنڈ کا سازو سامان سرینگر پہنچایا گیا۔
سامان لے جانے والے طیاروں کے ساتھ ساتھ لڑاکا طیاروں نے بھی اس کارروائی میں اہم کردار ادا کیا۔ سرینگر کی ایئرفیلڈ فضائیہ کے 'ٹیمپسٹ' لڑاکا طیاروں کے لیے چھوٹی تھی۔ ان کی جگہ پرانے 'سپٹفائر' طیاروں پر بندوقیں نصب کی گئیں اور ان سے انڈین بری فوج کی مدد کا کام لیا گیا۔ دریں اثناء انبالہ سے لڑاکا طیارے لمبی پرواز کر کے قبائلیوں کو نشانہ بناتے رہے۔
فضائیہ کی مدد سے انڈین فوج تین نومبر کو بڈگام کے قریب شدید لڑائی کے باوجود سرینگر کی فضائی پٹی پر قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔

،تصویر کا ذریعہHulton Archive
چھ نومبر تک 3500 فوجی کشمیر میں اتر چکے تھے۔ اس کے ساتھ بکتر بند گاڑیوں کا ایک کالم بھی پٹھان کوٹ سے آ کر شامل ہو گیا تھا۔
انڈین فوج کو سات نومبر کو فضائیہ کی مدد سے تین طرف سے قبائلیوں پر حملہ کرنے کا حکم ملا۔ قبائلی ایک جگہ جمع ہونے کی وجہ سے آسان نشانہ تھے اور لڑائی صرف 20 منٹ جاری رہی۔
اگلے 12 ماہ کے دوران رائل انڈین ایئر فورس نے کشمیر کی لڑائی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے محاصرے کے شکار لیّہ اور پونچھ کو ضروری رسد کی فراہمی میں مدد کی اور اس بات کو یقنی بنایا کہ وہ انڈیا کے کنٹرول میں ہی رہیں۔
کشمیر کی پہلی لڑائی کے 70 سال کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے موجودہ نقشے کی ذمہ دار رائل انڈین ایئر فورس ہی ہے۔










