آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
کشمیر کا انڈیا سے الحاق 70 برس بعد بھی متنازع کیوں؟
اگست 1947 میں جب برصغیر کی تقسیم ہو رہی تھی تو شاہی ریاست جموں اور کشمیر بھی ایک فیصلے کا منتظر تھی۔ یہ ریاست اپنی آزاد حیثیت قائم رکھنے کی امید رکھتی تھی لیکن حالات کے پیش نظر اسے ایک جانب الحاق کرنا پڑا۔ بی بی سی کے نامہ نگار عامر پیرزادہ نے وادی میں سفر کیا اور اس وقت کی داستانیں سنیں اور جاننے کی کوشش کی کہ کیسے کشمیر کی تاریخ کے اس اہم لمحے پر آج بھی بحث کی جاتی ہے۔
اکتوبر 1947 میں محمد سلطان تہکر کی عمر 15 برس تھی اور وہ اوڑی کے مہوڑا ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن میں ملازم تھے۔
یہ جموں و کشمیر کا واحد بجلی گھر تھا جہاں سے سری نگر کو بھی بجلی فراہم کی جاتی تھی۔
انھیں پاکستان سے پشتون قبائل کی آمد یاد ہے۔ وہ انھیں ’قبائلی‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔
بجلی گھر کے کھنڈروں میں بیٹھ کر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد سلطان نے بتایا ’مہاراجہ کی افواج اوڑی سے پسپا ہو کر مہوڑا پہنچ گئی تھیں۔ وہ قبائلیوں کے خلاف یہاں لڑیں۔ یہاں انھوں نے بنکر بنائے۔ قبائلی جنگلوں سے نکل کر گولیاں چلاتے تھے۔ پھر مہاراجہ کی افواج بھاگ کھڑی ہوئیں۔‘
محمد سلطان اور ان کا خاندان بھی بھاگ کر جنگل میں جا چھپا اور وہاں ایک ہفتے تک رہا۔ ان کے خیال میں وہ قبائلی ’لٹیرے‘ تھے۔ ’ہم خوفزدہ تھے۔ کوئی ہمیں بھی مار سکتا تھا اس لیے ہم چھپ گئے تھے۔‘
بیرونی فوج
کیا وہ پاکستانی قبائلی کشمیر میں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے آئے تھے یا صرف حملہ آور تھے؟
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن اس کا راجہ ہندو تھا۔
ریاست میں 1930 کی دہائی سے مسلمان مزید حقوق کے لیے تحریک چلا رہے تھے اور سنہ 1947 میں تقسیمِ برصغیر کے نتیجے میں شروع ہونے والے تشدد کے اثرات بھی ریاست پر پڑے تھے۔
پنجاب سے جان بچا کر بھاگنے والے ہندو جموں پہنچے تھے اور انھوں نے خود پر بیتنے والی کہانیاں سنائی تھیں۔ اس کے بعد وہاں بسنے والے ہندو مسلمانوں کے خلاف ہو گئے۔
کشمیری حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہنے والے تاریخ دان ڈاکٹر عبدالاحد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پشتون قبائل مدد کرنے آئے تھے لیکن ان میں کچھ ’بدمعاش‘ عناصر بھی موجود تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ 15 اگست کے بعد مسلمانوں کے خلاف تشدد میں تیزی آ گئی تھی۔ ’پاکستان سے لوگ، مجاہدین، قبائلی جیسے کہ آفریدی، پٹھان اور پشاوری مدد کرنے آئے تاکہ اس آزاد حکومت کو مستحکم کیا جا سکے جس کا اعلان مظفرآباد اور پونچھ کے عوام نے کیا ہے۔‘
پروفیسر صدیق واحد اتفاق کرتے ہیں کہ قبائلی مداخلت جموں میں ہونے والی بےچینی کا ردعمل تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان مضطرب ہو گیا اور اس نے فوجیوں کو عام شہریوں یا پٹھانوں کے بھیس میں بھیجا۔ اس کہانی کی بڑی حد تک تصدیق ہو تو جاتی ہے لیکن اصل حالات و واقعات ابھی واضح نہیں ہیں۔‘
اصل حالات و واقعات چاہے ابھی واضح نہ ہوں لیکن پاکستانی قبائلیوں کے کچھ اقدامات ایسے تھے جو بدنامی کا باعث بنے۔
نن کا قتل
انھوں نے 27 اکتوبر 1947 کو بارہ مولا میں سینٹ جوزف کانونٹ اینڈ ہاسپٹل پر حملہ کیا۔
شمالی کشمیر میں یہ واحد مسیحی ادارہ تھا۔
سسٹر ایمیلیا کی جان اس حملے میں بچ گئی اور جب سنہ 1987 میں ان کی بہن کیلسٹینا کانونٹ آئیں تو اس وقت بھی وہ حیات تھیں۔ اب ان کا انتقال ہو چکا ہے لیکن سسٹر کیلسٹینا ان کی باتیں یاد کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’قبائلی حملے میں بہت زیادہ لوگ قتل ہوئے۔‘
فرنسیسین مشنریز آرڈر آف میری کی ایک نن سسٹر ٹیرسالینا بتاتی ہیں کہ ’سسٹر ٹیرسلینا، ڈاکٹر بیٹو، کرنل ڈائیکس، ان کی اہلیہ اور نرس فلومینا کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔‘
ہسپتال کی ایک مریض موتیا دیوی کپور کو بھی مار دیا گیا۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ قبائیلوں کو پاکستانی فوج کی خاموش حمایت حاصل تھی۔
بارہ مولا کے بعد ان کا اگلا ٹھکانہ سری نگر اور اس کا فوجی اڈہ تھا۔
اس دوران ایک نوجوان کشمیری رہنما مقبول شیروانی نے آگے بڑھ کر قبائلیوں کی پیش قدمی روک دی۔ انڈین فوجیں 27 اکتوبر 1947 کو سری نگر میں اتریں اور لڑائی کا آغاز کیا۔
جب قبائیلوں کو شیروانی کے دہرے پن کا علم ہوا انھوں نے اسے سولی پر چڑھا دیا۔ انڈین حکومت کی جانب سے انھیں ’شہید‘ قرار دیا جاتا ہے جبکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کشمیری انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ان کے خاندان نے انٹرویو دینے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
اور یہیں کشمیر کی پیچیدگیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔
کشمیر کے موضوع کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو وائٹ ہیڈ کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات بھلا دیا جاتا ہے یا نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن 70 سال قبل کشمیر میں ایک بڑی جنگ کی تیاری تھی۔‘
’ہزاروں کی تعداد میں افراد سری نگر کی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ وہ مہاراجہ کے خلاف نہ صرف عظیم کشمیر قوم پرست رہنما شیخ عبداللہ بلکہ انڈین حکمرانی کی حمایت میں مظاہرے کر رہے تھے۔‘
بھیم سنگھ کا تعلق ڈوگرہ شاہی خاندان سے ہے جو کبھی جموں اور کشمیر پر حکومت کرتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مہاراجہ ہری جنگ کو جب دھمکایا گیا تو وہ انڈیا میں شامل ہو گئے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مہاراجہ جموں اور کشمیر کو انڈیا اور پاکستان سے الگ آزاد ریاست کے طور پر رکھنا چاہتے تھے تو انھوں نے مہاراجہ کی روشن خیالی کی تعریف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مہاراجہ جموں اور کشمیر کی مخلوط ثقافت کے بارے میں جانتے تھے۔ وہ انڈیا کی مخلوط ثقافت کے بارے میں بھی جانتے تھے۔ وہ جمہوریت سمجھتے تھے۔ وہ جموں اور کشمیر کے لوگوں کی رائے جاننا چاہتے تھے۔‘
لیکن کشمیر میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ الحاق کا قدم ’سیدھا سادہ‘ سا تھا جہاں لوگوں کو سمجھ نہیں تھی کہ کیا ہو رہا تھا۔
ڈاکٹر عبدالاحد بےباک ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 'کشمیر (انڈیا کا) حصہ اس دھوکہ دہی اور جعلی الحاق سے بنا۔' وہ کہتے ہیں کہ 'لوگ الحاق کے حق میں بالکل نہیں تھے۔ ایک چھوٹی سی اقلیت تھی جس نے شیخ عبداللہ کی حمایت کی۔'
ڈاکٹر احد کہتے ہیں کہ شیخ عبداللہ نے انڈین حکومت کے ساتھ ’ساز باز کی‘ اور کشمیر کا سلطان بننے کے ’ان کے اپنے مقاصد' اس کے پیچھے کارفرما تھے۔
ڈاکٹر صدیق واحد کہتے ہیں کہ صورتحال زیادہ نازک تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ 'آبادی کا بڑا حصہ شاید خوش تھا کیونکہ وہ شیخ عبداللہ کے ساتھ تھا اور انھوں نے اس وقت شیخ عبداللہ اور کشمیر کے عوام کو کروائی جانے والی یقین دہانی کی بنیاد پراتفاق کیا تھا۔
’میرے خیال میں آبادی کا ایک بڑا حصہ اس سے ناخوش بھی تھا لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔‘
متنازع تاریخ
الحاق کی اصل تاریخ کیا تھی اور دستاویز پر کس نے دستخط کیے اس پر آج بھی بحث جاری ہے۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق کی دستاویز پر 26 اکتوبر کو سری نگر سے جموں بھاگ آنے کے بعد اپنے محل میں دستخط کیے تھے۔
لیکن انڈین وزیراعظم جواہرلال نہرو کے نمائندے وی پی مینن 27 اکتوبر 1947 کو جموں پہنچ سکے تھے۔
پروفیسر صدیق واحد کہتے ہیں کہ 'یہ رضانامے پر دستخط ہوئے تھے جو مشروط تھے، اس بنیاد پر مشروط تھے کہ مہاراجہ جس کے پاس اس رضانامے کا اختیار تھا وہ اپنے لوگوں سے مشاورت کرے گا۔'
لیکن بھیم سنگھ کا کہنا ہے کہ لوگوں کی خواہش کی نمائندگی پارلیمان نے کی جو مہاراجہ نے قائم کی تھی۔
پروفیسر واحد کہتے ہیں کہ ’تین معاملات میں خودمختاری سے جزوی دستبرداری کی گئی۔ ان میں دفاع، خارجہ امور اور مواصلات شامل تھے۔‘
مہاراجہ نے جموں اور کشمیر چھوڑ دیا اور کبھی واپس نہیں آئے اور شیخ عبداللہ ریاست کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔
لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو نے انھیں سنہ 1953 میں غداری کے الزام میں جیل بھیج دیا۔
انڈیا کا کہنا تھا کہ ’شیرِ کشمیر‘ آزادی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
سری نگر میں یونیورسٹی طالب علم سجمھتے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ الحاق ہی اکتوبر 1947 میں واحد راستہ تھا۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس وقت سے ان کی امیدیں اور خواب منتشر ہوئے ہیں۔.
ایک پی ایچ ڈی طالبہ طیبہ پنڈت کہتی ہیں: ’میرا یقین ہے کہ ہم کبھی انڈیا کا حصہ نہیں تھے، انڈیا کا حصہ نہیں ہیں اور کبھی بھی انڈیا کا حصہ نہیں بن سکتے۔‘
قانون کے طالب علم وسیم مشتاق کہتے ہیں انڈیا ’وعدہ خلافی‘ کا مجرم ہے اور اس نے ریاست کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا ہے کہ اب صرف پاکستان میں شمولیت کا راستہ بچا ہے۔
تاہم بزنس کے طالب فیض اسلام کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ انڈیا کشمیریوں کے دل جیت لے اگرچہ اس کی فوج نے اس کے ساتھ ایک پلتے بڑھتے 'دہشت گرد' جیسا سلوک کیا ہے۔
’اس (انڈیا) کو کشمیر میں مزید لوگوں تک پہنچنا ہو گا اور ان پر اچھے اعتماد کے اظہارکی ضرورت ہے۔
’تاریخ سے فرق نہیں پڑتا یا کس نے کیا کیا کیونکہ اگر انڈیا یہ مسئلہ سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ بآسانی کر سکتا ہے۔‘