آدم خور شیرنی کو مارنے کا حکم برقرار

انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کی ایک عدالت نے اس آدم خور شیرنی کو مارنے کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے جو چار افراد کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے۔
دو سالہ آدم خور شیرنی کو قتل کرنے کے احکامات ریاست کے محکمہ جنگلات نے 23 جون کو جاری کیے تھے اور انھیں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے کارکنان نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
اس شیرنی کو پہلی بار 22 جولائی کو اس وقت پکڑا گیا جب اس نے مہاراشٹر کے دیہی علاقے براہم پوری میں دو افراد کو مار ڈالا تھا اور چار کو زخمی کر دیا تھا۔
اس وقت شیرنی کو شیروں کے لیے مخصوص علاقے بور میں کھلا چھوڑ دیا تھا لیکن اس کے بعد اس نے مزید دو افراد کو مار ڈالا۔
ڈاکٹر جریل بنائت جھنوں نے شیرنی کے قتل کے حکم کی مذمت کی تھی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف انڈیا کی سپریم کورٹ میں جائیں گے۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے شیرنی کو بے ہوش کر کے کسی دوسرے مقام پرمنقتل کیا جانا چاہیے مگر اس علاقے کے مکین اس صورتحال کی وجہ سے بہت خوفزدہ ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
محکمہ جنگلات کے افسران جو کہ اس کالا نامی شیرنی کا پیچھا کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے میں 29 جولائی کو داخل ہونے کے بعد سے اب تک 500 کلومیٹر سے زیادہ کا راستہ عبور کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ دنیا کے 60 فیصد شیر انڈیا میں بستے ہیں۔ لیکن ان کی یہ پناہ گاہیں چوری چھپے شکار کرنے والوں کی وجہ سےخطرے سے دوچار ہیں۔ روایتی چینی ادویات میں ان کے جسم کے مختلف اعضا کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادیاں بھی ہیں جو اب ان کی پناہ گاہوں کے قریب پہنچ چکی ہیں اور یہ جنگلی جانور خوراک کی طلب میں ان کا رخ کرتے ہیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شیروں کی ہلاکت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سنہ 2014 میں 78 جبکہ سنہ 2015 میں 80 شیروں کی ہلاکت ہوئی۔









