چین میں حاملہ خاتون کی خودکشی کے بعد طبّی حقوق پر بحث

،تصویر کا ذریعہSEAN GALLAGHER
چین میں ایک حاملہ خاتون کے درد زہ برداشت نہ کر پانے کے سبب خودکشی کرنے کے واقعے پر سوشل میڈیا پر سخت رد عمل ظاہر کیا جارہا ہے اور طبّی حقوق سے متعلق ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق خاتون کے اہل خانہ نے آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش کی اجازت نہیں دی تھی۔
یہ واقعہ 31 اگست کو شمالی صوبے شانزی میں پیش آیا تھا۔ 26 سالہ مذکورہ خاتون کا نام ما بتا گيا ہے۔ وہ شدید درد زہ میں مبتلا تھیں اور گھر والے آپریشن کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ جب انھیں برداشت نہیں ہوا تو وہ ہسپتال کی کھڑکی سے نیچے کود گئیں جس میں وہ اور ان کابچہ بھی چل بسے۔
یولن نمبر ون ہسپتال کے ایک ڈاکٹر ہو جنوئی نے مقامی اخبار 'چائنا اکنامک ڈیلی' کو بتایا کہ محترمہ ما 'دو بار وارڈ سے باہر گئیں اور اپنی فیملی کو بتایا کہ ان کا درد قابل برداشت نہیں ہے اور وہ آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش چاہتی ہیں لیکن ان کی فیملی اس کے لیے تیار نہیں تھی اور اجازت نہیں دی۔'
لیکن ان کے شوہر یان نے اس بات سے انکار کیا ہے۔ انھوں نے 'بیجنگ یوتھ ڈیلی' کو بتایا: ' ہم نے سیزیرین (آپریشن کے عمل) سے انکار نہیں کیا تھا۔'
ہسپتال کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گيا ہے کہ محترمہ ما 41 ہفتوں کی حاملہ تھیں اور ڈاکٹروں نے فیصلہ تھا کہ چونکہ جنین کے سر کا فریم قدرے بڑا ہے اس لیے قدرتی طریقے سے ڈیلیوری خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔'

،تصویر کا ذریعہSINA WEIBO
ہسپتال کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں جب طبی عملے نے فیملی سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ 'وہ اسے سمجھتے ہیں لیکن آپریشن کروانے سے انکار کردیا اور کہا کہ انھیں نگرانی میں رکھا جائے۔'
ہسپتال نے اپنے بیان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ اہل خانہ کا مذکوہ خاتون سے کیا تعلق تھا۔ لیکن مسٹر یان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی اہلیہ درد کی حالت میں دو بار وارڈ سے باہر نکلی تھیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال نے انھیں بری طرح سے پریشان کر دیا تھا اور انھوں نے ڈاکٹر سے کہا تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کو فوری طور پر تلاش کریں جو آپریشن کے عمل سے اچھی طرح واقف ہو۔
انھوں نے کہا کہ جب تک وہ فون پر اپنی بات ختم کر پاتے تب تک ان کی اہلیہ وہاں سے غائب ہو چکی تھیں۔ انھوں نے 'بیجنگ یوتھ ڈیلی' کو بتایا: 'اپنی بیوی کی عادات سے واقفیت کی بنیاد پر میں یہ نہیں سمجھتا کہ ان کا اتنا شدید رد عمل ہوسکتا تھا۔'

،تصویر کا ذریعہSHANNON FAGAN
چین میں قانون کے مطابق کسی بھی آپریشن سے پہلے طبی عملے کو اہل خانہ سے صلاح و مشورہ کرنا اور اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس طرح کے سوالات اٹھائے ہیں کہ آخر محترمہ ما کو خود یہ فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔
فریڈم ماریشیا لیون نے لکھا: 'ایک حاملہ خاتون اپنی حالت اچھی طرح سے جانتی ہے، تو پھر آخر صرف اس کا دستحظ ہی کافی کیوں نہیں ہے؟ ان کی اس پوسٹ کو تقریبا دس ہزار لوگوں نے لائیک کیا ہے۔
وؤلی لاؤتیاتو کا کہنا ہے: 'فیملی کو قاتل گردانہ جانا چاہیے۔' ایک دوسرے صارف نے لکھا: 'انھیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔'
جن لنگ زیاؤ زیاؤ نے طنزیہ انداز میں لکھا: 'کتنی اچھی بات ہے کہ چین میں مریضوں کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ خود اپنا فیصلہ کر سکیں۔'
امن کے لیے نوبیل انعام یافتہ کار کن مرحوم لیو زیابو کو علاج کے لیے پےرول پر رہا تو کیا گيا تھا لیکن انھیں کینسر کے علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور تب سے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین میں اس طرح کی بحث ہورہی ہو۔

،تصویر کا ذریعہAFP
چین میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کا عمل پسند کیا جاتا رہا ہے اور لوگ اسے کم تکلیف دہ پیدائش کا عمل مانتے رہے ہیں۔ لیکن 2015 میں چین میں جب سے ایک بچے کی پالیسی کوختم کیا گيا ہے تب سے اس سوچ میں بھی کافی تبدیل آگئی ہے۔
اب تو حکومت اور سرکاری میڈیا سبھی بڑے فعال طریقے سے یہ مہم چلا رہے کہ کہ دوسرے بچّے کی پیدائش کی کوشش ہونی چاہیے اور اس کے لیے خواتین کو آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش سے بچنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
گذشتہ برس نیشنل ہیلتھ اینڈ فیملی پلاننگ کمیشن کے ماؤ قنان نے فائنانشیئل ٹائمز کو بتایا تھا کہ 'خواتین کو اس بات کا خيال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش سیزیریئن چاہتی ہیں کہ نہیں کیونکہ اس سے ان کا دوبارہ حاملہ ہونے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔'
آپریشن کے ذریعے پیدائش کا عمل تھوڑا پیچیدہ ہوتا ہے اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ماں کی کوکھ متاٹر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دوبارہ حمل ٹھہرنے کا عمل مشکل ہو جاتا ہے۔










