آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
جموں میں آباد روہنگیا واپس نہیں جانا چاہتے
گذشتہ چار سالوں سے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ریاست میں رہ رہے 47 سال کے روہنگیا مسلمان کمال حسین اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
جموں کے مضافات میں چھوٹے گروپوں میں رہ رہے کمال اور ان جیسے بہت سے روہنگیا مسلمانوں کو جب سے پتہ چلا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو غیر قانونی طریقے سے رہنےوالے روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی ہدایت ہیں، برما کے ان ستائے ہوئے مسلم اقلیتوں کو اپنا مستقبل تاریکی میں دکھائی دے رہا ہے۔
جموں میں دہاڑی پر کام کر رہے کمال حسین نے بی بی سی کو بتایا، ’برما اب بھی جل رہا ہے۔ ہم گھر نہیں جا سکتے۔ یہاں ہم محفوظ ہیں۔ گذشتہ 70 سالوں میں برما میں حکومت مسلم آبادی کو نشانہ بنا رہی ہے اور ہمیں جیل میں ڈال رہی ہے۔ اگر وہ ہمیں یہاں سے لے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں، تب بھی میں وہاں نہیں لوٹنا چاہتا۔‘
انھوں نے کہا، ’بےشک میں بمشکل گزر بسر کر رہا ہوں مگر خوش ہوں کہ زندہ ہوں اور اپنے بچوں کے لئے بنیادی سہولیات اکٹھی کر پا رہا ہوں۔ میں برما جانے کے لیے تیار نہیں ہوں. میں اپنے بچوں کو برما میں تشدد کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتا۔‘
انڈیا میں غیر قانونی طور پر آباد روہنگیا مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ آبادی جموں صوبے کے مختلف حصوں میں مقیم ہے۔ جموں اور کشمیر کی وزارت داخلہ کی طرف جاری اعداد و شمار کے مطابق جموں میں گذشتہ کچھ سالوں سے 5700 روہنگیا مسلمان رہ رہے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ان خاندانوں کے بچے بھٹڈی اور نروال بالا علاقے میں ریاستی حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور کچھ مدرسوں میں داخل ہوئے ہیں۔
گذشتہ 6 ماہ سے یہ خاندان بڑی مشکل میں رہ رہے ہیں۔ فروری 2017 میں جموں کے مختلف علاقوں میں انہیں متنبہ کرنے کے لیے 'جموں چھوڑو' والے بینر لگائے گئے تھے۔ وہ خفیہ ایجنسیوں اور ریاست کی سیاسی پارٹیوں کے ریڈار پر بھی آگئے، جنہوں نے انہیں واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔
32 سال کے امام حسین بتاتے ہیں، ’میں گھر واپس جانے کے لیے تیار ہوں اگر وہاں پر امن و امان ہمارا استقبال کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ملک میں حکومت کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں سنتے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’مجھے پتہ چلا ہے کہ اب کوئی گھر لوٹتا ہے تو اس کے رشتہ داروں کو جیل میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
امام حسین کا کہنا ہے کہ گھر تبھی لوٹوں جب وہاں لوٹنا محفوظ ہو گا۔
حسین نے کہا، ’یہاں میں آزاد ہوں۔ میں ہر 10 دن میں ممبئی جاتا ہوں اور 500-600 کلو مچھلی خریدتاہوں۔ میں مال کو ٹرین میں رکھتا ہوں اور روہنگیا مسلمانوں کے لیے بنی لوکل مارکیٹ میں مچھلی فروخت کرتا ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ میں تو بس اپنی زندگی بسر کر رہا ہوں اور کسی سرکاری ایجنسی سے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔
مرکزی حکومت کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے حسین نے بی بی سی سے کہا، ’مجھے نہیں لگتا کہ جموں میں رہنے والے روہنگیا مسلمان واپسی کے لیے تیار ہیں۔ اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو چھوڑنا ہی پڑے گا مگر خود سے ہم اپنے گھر نہیں جانا چاہتے۔‘
ایک اور نوجوان صدام حسین نے بتایا، ’اگر حکومت ہمیں واپس گھر بھیجتی ہے تو ہم اس سے مقابلہ نہیں کر سکتے.‘
انطوں نے کہا کہ برما میں سیکورٹی ہی ہماری سب سے بڑی تشویش ہے. ’میرے والدین برما میں ہی ہیں اور مجھے معلومات ملتی رہتی ہے کہ وہاں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے۔‘
بھٹڈي علاقے میں چھوٹا سا سٹور چلا رہے شبير احمد نے بی بی سی سے کہا، ’ابھی تک کسی بھی حکومت نے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں لیا ہے۔ مگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں واپس برما نہیں جانا چاہتا۔‘
شبير نے کہا، ’میری زندگی کتے سے بھی بدتر ہے۔ کتے کی بھی کچھ قیمت ہے مگر میری زندگی کی قیمت گلی کے کتے سے بھی کم ہے۔‘
انھوں نے کہا، ’میں کوئی شاہی زندگی نہیں جی رہا۔ بس تھوڑی سی جگہ کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ میں کرایہ بھی دے رہا ہوں، بجلی کے بل بھی چکا رہا ہوں۔ پھر بھی ہر وقت میرے سر پر تلوار لٹکی رہتی ہے۔‘
جموں میں غیر قانونی طریقے سے آباد غیر ملکی شہریوں کے معاملے پر بنے وزراء کے گروپ کی قیادت کرنے والے نائب وزیر اعلی ڈاکٹر نرمل سنگھ بی بی سی کو بتایا، ’ابھی تک ہم نے دو میٹنگز کی ہیں اور حالات کو لے کر معلومات جمع ہے۔‘
پہلی ملاقات میں ڈاکٹر نرمل سنگھ نے انتظامیہ کو جموں اور سامبا اضلاع میں رہ رہے روہنگیا اور بنگلہ دیشیوں کا مکمل ڈیٹا جمع کرنے کی ہدایت کی گئی. ڈاکٹر نرمل سنگھ نے کہا، 'ہم ان کی ملک بدری سے منسلک مسائل آباد کے لئے تیسری ملاقات کرنے جا رہے ہیں.'