'انڈیا کے سبب ایک پاکستانی دل دھڑکے گا'

- مصنف, نتن شریواستو
- عہدہ, بی بی سی ہندی، دہلی
انڈیا میں پاکستان کے جس چار ماہ کے بچے کا علاج چل رہا تھا وہ اب اپنے ملک جانے کی تیاری میں ہے۔
دو ماہ کی عمر میں لاہور کے ریحان کنول صدیقی کو ڈاکٹروں نے چند دن کا مہمان قرار دیا تھا کیونکہ ان کے دل میں سوراخ تھا۔
پاکستان میں جب ڈاکٹروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے تو ان کے خاندان نے انڈیا میں علاج کرانے کے بارے میں غور کیا۔
کنول صدیقی بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی نے انڈیا کے کچھ بڑے ڈاکٹروں کے بارے میں بتایا تو تھوڑی امید بندھی۔
انھوں نے بتایا: 'جب ہمیں پتہ چلا کہ بیٹے کا علاج انڈیا میں ممکن ہے تو امید بندھی. لیکن ویزا قوانین میں آنے والی سختی سے یہ خیال آتا تھا کہ شاید ہمارا بچہ علاج سے محروم نہ رہ جائے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
یہ بات رواں سال مئی کی ہے جب انڈیا-پاکستان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ تھا اور سفارتی تعلقات دباؤ میں تھے۔
پاکستان میں مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں پکڑے جانے والے ہندوستانی شہری كلبھوش جادھو کی سزا پر بھی کشیدگی کا سبب تھی۔

دارالحکومت دہلی سے ملحق نوئیڈا کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں بیوی کے ساتھ واپس جانے کی پیکنگ میں مصروف کنول صدیقی نے جذباتی انداز میں انڈین وزیر خارجہ کا ذکر کرتے ہوئےکہا: 'میں نے ٹویٹر پر سشما سوراج جی سے مدد مانگی۔ امید ہی نہیں تھی کہ ایک عام آدمی کی مدد ہو سکے گی۔ انھوں نے فوری طور پر مجھے یقین دہانی کرائی۔'
جون کے پہلے ہفتے میں انڈیا نے انھیں چار مہینے کا میڈیکل ویزا جاری کیا۔
انڈیا میں ریحان کے پیچیدہ آپریشن کو کامیابی سے انجام دینے والے ایک ڈاکٹر آشوتوش مارواہ نے بتایا: 'ریحان کے دل کی بیماری میں بچنے کے امکانات بہت کم تھے اور ان کا دل ناکام ہونے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دو دن، گھنٹوں تک جاری رہنے والی سرجری میں ہم نے اس کے دل میں خون کی نالی سے لے کر پھیپھڑوں تک پر کام کیا۔'

،تصویر کا ذریعہTwitter
بڑی سرجری کے بعد ڈاکٹروں نے ریحان کو ایک ماہ تک ہسپتال میں رکھا اور اب ریحان واپس لاہور جانے کو تیار ہیں۔
اس کے والد کا کہنا ہے کہ’دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات کا اثر عام شہریوں، خاص طور سے مریضوں پر بالکل نہیں ہونا چاہیے۔‘
بیرون ملک سے انڈیا آکر علاج کرانے والے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن میں پاکستان سے آنے والے مریض بھی شامل ہیں۔
لیکن دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ کئی ماہ سے جاری کشیدگی کے بعد ویزا قوانین سخت ہوئے ہیں جس کا اثر مریضوں کی تعداد پر پڑ سکتا ہے۔
چند دن پہلے ہی انڈیا کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج نے کہا تھا کہ انڈیا صرف انھی پاکستانی شہریوں کو ہی علاج کے لیے ویزے جاری کرے گا جن کے نام پاکستانی وزیرِاعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز کی جانب سے تجویز کیے جائیں گے۔












