نوٹنکی کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں فنکار

نوٹنکی انڈیا کے قدیم ترین لوک تھیٹرز میں سے ایک ہے اور یہ ملک کے چھوٹے قصبات اور دیہی علاقوں میں بہت مقبول ہے۔ فوٹوگرافر ادت کلشریشتھا نے تصاویر کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آج کے جدید دور میں تفریح کا یہ پرانی اور روایتی طریقہ اپنا وجود کیسے قائم رکھے ہوئے ہے۔

1980 کی دہائی میں ٹی وی کی مقبولیت سے پہلے شمالی انڈیا میں اکثر ایسے سفری تھیٹر ہی عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے۔

لیکن کچھ گروپ اور فنکار آج بھی اس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔

نوٹنکی جسے لوک اوپرا بھی کہا جاتا ہے، آج بھی مویشیوں کے روایتی میلوں میں شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے چیز سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں ریاست بہار کے قصبے سونیپور میں ہونے والے میلے میں کم از کم آٹھ ایسے تھیٹر گروپس نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

یہ تھیٹر دیکھنے کے لیے لوگ 100 سے 500 روپے فی کس تک خرچ کرتے ہیں اور ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔

نوٹنکی میں عموماً کہانی یا تو لوک قصوں یا پھر ہندی اساطیر سے لی جاتی ہے۔ اس ڈرامے کے دوران رقص بھی ہوتا ہے، موسیقی بھی اور کہیں خاکے بھی۔

چونکہ یہ کوئی باقاعدہ طے شدہ پروگرام کے تحت نہیں ہوتا اس لیے تماشائیوں کی فرمائش پر ان کا پسندیدہ رقص یا خاکہ دوبارہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے۔

نوٹنکی میں سب سے مقبول وہ لوک رقاصائیں ہوتی ہیں جو اکثر اپنے ساتھیوں کے تیار کردہ لوک گانوں پر رقص کرتی ہیں۔

نوٹنکی میں حصہ لینے والے فنکار پوری سج دھج سے سٹیج پر نمودار ہونے سے قبل اکثر سٹیج کے پیچھے تاریک کمروں میں تیاری کرتے ہیں۔

ایسی ہی ایک فنکارہ سنگیتا نے بتایا کہ انھوں نے نوٹنکی میں رقص کا آغاز اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس کھانے تک کے لیے کچھ نہ تھا اور اسی لیے میں نے ناچنا شروع کیا لیکن اب مجھے رقص کرنا اچھا لگتا ہے۔ میرے قدم رکتے ہی نہیں۔‘

سنگیتا کے مطابق رقص کرنا انھوں نے اپنی ساتھیوں اور بالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر سیکھا۔

نوٹنکی میں رقص کا سلسلہ شام بجے سے شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہتا ہے اور سنگیتا کے مطابق ’بعض اوقات حالات خراب بھی ہو جاتے ہیں۔‘

میں نے بھی لوگوں کو شراب کے نشے میں مدہوش ہو کر سنگیتا کے قریب ہونے کی کوشش کرتے دیکھا۔

34 سالہ موسمی سرکار نوٹنکی میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فن انھیں دبئی اور نیروبی جیسے شہروں تک لے گیا ہے۔

’مجھے طائفے کے ساتھ سفر کرنا اچھا لگتا ہے۔ میں نے حکومتی تقاریب میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔

تاہم موسمی کے مطابق انھیں اپنی پرفارمنس کے عوض جو رقم ملتی ہے وہ خاندان کی گزر بسر کے لیے کافی نہیں۔

’میں روزانہ دو ہزار روپے کماتی ہوں۔ ہمیں حکومت سے اپنے بچوں کی نوکری اور ریٹائرمنٹ پر پینشن کی شکل میں مدد کی ضرورت ہے۔‘

رقاصاوں اور رقاصاؤں کو اکثر معاشرے میں وہ عزت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں اور انھیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امت کمار سنگھ نے نوٹنکی کی رقاصہ چاندنی سے تین برس قبل شادی کی جس کی قیمت انھیں جائیداد سے عاق ہونے کی شکل میں چکانی پڑی۔

اب وہ تھیڑ میں چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے گزارہ کرتے ہیں۔

نوٹنکی کی پرفارمنسز ہمیشہ تالیوں اور سیٹیوں کی گونج میں ہی ختم نہیں ہوتیں بلکہ اکثر مدہوش تماشائی جوش میں آ کر لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ ایسی ٹوٹی کرسیوں کی شکل میں بھی نکلتا ہے۔

تمام تصاویر بشکریہ ادت کلشریشتھا