جنگل کا راج بدلنے کو ہے!

ایک گائے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنایک اخبار کے مطابق ایک گائے کے چارے پر روزانہ ساٹھ روپے خرچ ہوتے ہیں
    • مصنف, سہیل حلیم
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

کس نے سوچا ہوگا کہ گائے کے دن کچھ یوں بدلیں گے کہ شیر دم دبا کر بھاگتے نظر آئیں گے اور جنگلوں میں یہ معصوم سے جانور دندناتے پھریں گے!

جنگل سے شیروں کا راج ختم ہونے کو ہے اور اب وہاں گایوں کی حکمرانی ہوگی، اور اس میں غلط بھی کچھ نہیں، ایک جمہوری نظام حکومت میں یہ ہونا ہی تھا۔

لیکن پہلے تھوڑا پس منظر۔ ۔ ۔

انڈیا میں وفاقی حکومت گائے کے تحفظ کو اپنی سب سے اہم ذمہ داریوں میں شمار کرتی ہے۔ بہت سے نوجوان جنھیں لگتا ہے کہ حکومت اور پولیس یا تو نااہل ہیں یا سنجیدہ نہیں، وہ خود سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ وہ نام نہاد 'گو رکشک' (گائے کے محافظ) ہیں جو گائے کی حفاظت کی ذمہ داری اور قانون دونوں کو اپنے ہاتھوں میں لینے سے گریز نہیں کرتے۔

لیکن اس پورے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت ایک غیر معمولی حکمت عملی وضع کر رہی ہے۔ سنہ 1970 کے عشرے میں شیروں کو بچانے کے لیے 'پراجیکٹ ٹائیگر' شروع کیا گیا تھا جو بہت کامیاب ثابت ہوا تھا اور شاید اس کی کامیابی دیکھ کر حکومت کے دماغ کی بتی جلی ہے اور اب اسی طرز پر گایوں کے لیے بھی 'فاریسٹ ریزرو' بنانے پر غورکیا جارہا ہے!

شیر
،تصویر کا کیپشنپراجیکٹ ٹائیگر کے نتیجے میں انڈیا میں شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے

یہ بات نائب وزیر داخلہ ہنس راج اہیر نے اخبار انڈین ایکسپریس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ مسٹر اہیر کا کہنا تھا کہ مویشیوں کے تحفظ کی راہ میں سب سے بڑا 'اڑنگا' یا مسئلہ یہ ہے کہ 'انھیں پالے کون؟'

اخبار نے گائے کے تحفظ کے لیے جنگلات میں محفوظ علاقے قائم کرنے کی تجویز کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ ملک میں شیروں کی تعداد گھٹ کر صرف دو ہزار کے قریب رہ گئی ہے، اور ان کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے، تو شیر کے شکار پر پابندی لگا دی گئی۔ سنہ 1973 میں حکومت نے 'پراجیٹ ٹائیگر' شروع کیا جو شیر کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔

مسٹر اہیر کا کہنا ہے کہ وہ گائے کے تحفظ کے لیے بھی اسی طرز پر اقدامات کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے ماحولیات اور جنگلات کی وزارت سے صلاح مشورہ بھی کیا ہے اور کہا ہے 'ہم اس پر تیزی سے عمل کرنا چاہتے ہیں۔'

بس مسئلہ یہ ہے کہ مویشیوں کی آخری ’مردم شماری' میں گائے کی آبادی لاکھوں میں نھیں کروڑوں میں تھی، دس کروڑ سے زیادہ، اور ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں۔ اخبار کےمطابق گائے ہر جگہ نظر آتی ہیں، گلی محلوں میں، شاہراہوں پر اور کھانے کی تلاش میں کوڑے کے ڈھیر کے قریب اور مسٹر اہیر کے خیال میں آسان حل یہ ہے کہ ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنا دی جائیں کیونکہ جنگلات میں ان کے لیے چارے کی کمی نہیں ہوگی۔

گؤ رکشک
،تصویر کا کیپشنانڈیا میں گؤ رکشکوں کی زیادتیوں کا لوگ آئے دن شکار ہو رہے ہیں

یہ بحث بہت پیچیدہ ہے اور بنیادی سوال یہ ہے کہ جب گائے دودھ دینے لائق نہیں رہتی تو اس کی دیکھ بھال کون کرے اور کیوں؟ ایک گائے کے چارے پر روزانہ تقریباً ساٹھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور اخبار کے اندازے کے مطابق صرف ایک کروڑ ایسے مویشیوں کی دیکھ بھال پر، جو دودھ دینے لائق نہ رہے ہوں، ہرسال 22 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔

سوال یہ بھی ہے کہ انھیں ان محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچایا کیسے جائے گا؟ اور ان سے ان کی مرضی معلوم کی جائے گی یا نہیں؟ یا بس ٹرکوں میں بٹھا کر جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے گا؟ اور اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو بے چارے گو رکشک کس کا تحفظ کریں گے؟ کیا انھیں بھی ساتھ بھیجا جاسکتا ہے؟

بہرحال، سوال بہت ہیں اور جواب کم کیونکہ یہ تجویز ابھی شاید ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔ یہ شیروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ان کی بادشاہت اب ختم ہونے کو ہے۔

لاکھوں پر ہزاروں کی حکمرانی کے دن اب ختم ہوئے، جتنا جلدی شیروں کی سمجھ میں یہ بات آجائے، ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا! ہاں، پراجیکٹ ٹائگر پوری توانائی کے ساتھ جاری رہے گا، شیر جنگل کا بادشاہ تھا تو اس کا یہ حشر ہوا، حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس کا کون پرسان حال ہوگا؟