انتخابات میں بی جے پی کی فتح کا مسلمان کیا مطلب نکالیں؟

اترپردیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناترپردیش میں بیس فیصد مسلمان ہیں
    • مصنف, زبیر احمد
    • عہدہ, بی بی سی، دہلی

انڈین ریاست اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زبردست فتح پر بی جے پی حامیوں کے جشن اور ’جے شری رام کے نعروں‘ کی باز گشت کے درمیان ریاست کا 20 فیصد مسلمان کتنا خوش ہوگا؟

کیا وہ بھی اس خوشی میں شامل ہوں گے؟ اس کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے۔

یوپی جیسی اتنی بڑی ریاست میں بی جے پی نے یہ شاندار جیت کسی بھی مسلم امیدوار کو انتخابی میدان میں اتارے بغیر حاصل کی ہے۔

جس ریاست میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو وہاں مسلمان امیدوار کے بغیر انتخابات لڑنا ایک بھاری سیاسی جوا ثابت ہو سکتا تھا۔ ٹکٹوں کا فیصلہ صرف پارٹی صدر امت شاہ کے ہاتھ میں تھا اور کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہ دینا ان کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

اترپردیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناس الیکشن میں بی بے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا

گذشتہ عام انتخابات میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم ان کی ذمہ داری تھی۔ اس وقت بی جے پی نے انتخابی میدان میں 482 امیدوار اتارے جن میں سات مسلم امیدوار شامل تھے۔

لیکن مودی لہر کے باوجود ساتوں مسلم امیدوار الیکشن ہار گئے۔ اتر پردیش سے کوئی مسلم امیدوار میدان میں نہیں اتارا گیا اور اس ریاست میں بی جے پی نے 80 میں سے 71 نشستیں حاصل کرکے سب کو حیران کر دیا۔ آج مرکز میں حکمران بی جے پی کا لوک سبھا میں کوئی مسلم رہنما نہیں ہے۔

اس سے پہلے بھی گجرات میں حالات ایسے ہی تھے۔ بی جے پی نے سنہ 2012 کے انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اس وقت گجرات کی میڈیا نے اسے امت شاہ کا سیاسی حربہ بتایا تھا۔ کچھ نے گجرات کو ہندوتوا کی لیبارٹری کہا تو وہیں گجرات کے مسلمانوں نے اس وقت شکایت کی کہ بی جے پی انھیں سیاست اور سیاسی اختیار حاصل کرنے سے روک رہی ہے۔

مودی

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنمسلمان اسے سماجی تفریق کا نام دیتے ہیں

نتیجہ یہ ہوا کہ گجرات میں سنہ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں صرف چار رکن اسمبلی منتخب ہو کر آئے اور وہ تمام کانگریس پارٹی سے تھے۔

بی جے پی کے لیے یہ ایک سیاسی تجربہ تھا اور بی جے پی کو اس میں پوری کامیابی ملی۔

اب اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی لہر کو جس طرح سے بھی دیکھا جائے، ایک بات صاف ہے اور وہ یہ کہ بی جے پی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ کے بغیر نہ صرف انتخابات جیت سکتے ہیں، بلکہ زبردست جیت حاصل کر کے تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔

یوپی کے نتائج یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ گجرات سے شروع ہونے والا یہ سیاسی حربہ ایک وننگ فارمولا ہے۔

یو پی

،تصویر کا ذریعہ b

،تصویر کا کیپشنکیا مسلمان بی جے پی کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کریں گے

ریاست میں انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے کئی امیدواروں نے کہا تھا کہ وہ مسلم علاقوں میں انتخابی مہم نہیں چلا رہے ہیں اور یہ صرف ہندو علاقوں تک محدود ہے۔

مسلمانوں کو اب اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اسے سماجی تفریق کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن پارٹی کہتی ہے کہ وہ ووٹ بینک کی سیاست کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ امیدوار کی جیت کی قابلیت اور اس کے کام کو دیکھ کر الیکشن میں امیدوار کا انتخاب کرتی ہے۔

مسلمانوں میں تشویش ہے کہ بی جے پی کی بھاری جیت اور ان کی سیاسی علیحدگی سے مسلم معاشرے کو پریشانی ہو رہی ہوگی۔

لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ یوپی انتخابات میں بی جے پی کی اتنی بڑی کامیابی کے بعد مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ریاستوں میں سیاسی طور پر محروم رہنا پسند کرتے ہیں یا بی جے پی کے خلاف اپنی پرانی رائے تبدیل کر کے۔