آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
’انڈین کارروائی سے جنگ نہیں چھڑے گی‘
دو عشروں سے کچھ کم عرصے کے دوران انڈین پالیسی سازوں نے ان کے بقول پاکستان سے انڈین سرزمین پر ہونے والے جنگجوؤں کے حملوں کا فوجی جواب دینے سے احتراز کیا ہے۔
اگرچہ ہر حملے کے بعد ملک کے اندر ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے، انڈین قیادت اپنی سیاسی آئیڈیالوجی سے قطع نظر فوجی جواب دینے سے گریز کرتی رہی ہے۔ بعض باخبر صحافیوں کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ سرحد پار گولہ باری کی اجازت دے دیتے ہیں۔
عام طور پر اس بےعملی کا جواز ایٹمی جنگ بھڑک اٹھنے کا خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ جب کہ انڈیا کے بعض سیاسی مبصر اس بےعملی کو 'دفاعی برداشت' کا نام دے دیتے ہیں۔
درحقیقت پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے پہلے استعمال کے ڈاکٹرن نے انڈیا کی جانب سے کسی جوابی کارروائی کے امکان کو رد کر رکھ دیا ہے۔
تاہم اس ہفتے نریندر مودی کی حکومت نے ماضی کی مثالوں سے ہٹ کر الگ راہ نکال ہی لی۔
18 ستمبر کو اڑی کے فوجی کیمپ پر حملے کے کچھ ہی دیر بعد ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ انڈیا 'اپنی مرضی سے جگہ اور وقت کا انتخاب' کر کے جواب دے گا۔ سیاسی سطح پر وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اس حملے کی 'سزا ضرور دی جائے گی۔'
کچھ دن سوچ بچار کے بعد 29 ستمبر کی رات انڈین خصوصی دستوں نے بظاہر لائن آف کنٹرول کے پار وار کیا۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس حملے کا نشانہ دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے اور ان سے کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انڈین فوج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کر کے اس حملے کے بارے میں بتا دیا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
یہ بےحد سمجھدارانہ اور ماہرانہ اقدام تھا کیوں کہ اس سے پاکستانی فوج کی یہ پیغام مل گیا کہ انڈیا محدود پیمانے پر کارروائی کر رہا ہے۔
یہ کارروائی اس عام تاثر کو رد کرتی ہے کہ پاکستان نے کچھ 'سرخ لکیریں' مقرر کر رکھی ہیں جنھیں انڈیا ایٹمی جنگ چھڑنے کے پیشِ نظر پار نہیں کر سکتا۔
یہ تاثر اس وقت بھی قائم رہا جب انڈیا نے 1999 میں کارگل کی تمام تر جنگ اسی ایٹمی سائے تلے لڑی۔
تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کارگل کے تنازعے کے دوران بھی انڈیا نے برداشت کا مظاہرہ کیا تھا۔ مثال کے طور پر انڈیا کے ہوابازوں کو واضح ہدایات تھیں کہ وہ لائن آف کنٹرول عبور نہ کریں۔
عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اس انڈین کارروائی کا جواب دینے کی کوشش کرے۔
اس خطرے کے پیشِ نظر انڈین پنجاب میں سرحد کے قریب آباد بہت سے لوگوں نے اپنے گھر خالی کرنا شروع کر دیے ہیں۔
ادھر امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے اپنے انڈین ہم منصب اجیت دووال کو فون کر کے یہ واضح کروا لیا تھا کہ مزید کوئی کارروائی کا نہیں سوچا جا رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد جنگ چھڑنے کا کوئی امکان نہیں رہا۔
اس کے بعد سوزن رائس کے دفتر نے ایک واضح بیان جاری کیا تھا جس میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی دو تنظیموں، جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کو لگام ڈالے۔
یہ بات تو صاف ہے کہ انڈیا نے بقول اس کے، پاکستان کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی دہلیز عبور کر لی ہے۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ انڈین حکومت وادیِ کشمیر میں جاری شورش کے باوجود پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق اس حملے کے بعد سے انڈیا میں جنگ جوئی کے ماحول کی جلتی پر مزید تیل پڑ جائے گا، جس سے نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
تاہم یہ نظریہ غلط ہے۔
یہ کارروائی مقدار، اسلحے اور وقت کے لحاظ سے محدود تھی۔ اس کا مقصد تعزیری و تشہیری تھا۔
اس قدر صفائی سے کارروائی سرانجام دے کر حکومت نے شورش زدہ کشمیر کو قابو میں کرنے کا موقع ڈھونڈ لیا ہے۔
ریاست میں جاری بےچینی کو صرف امن و امان کا مسئلہ قرار دینے کی بجائے دیرینہ سیاسی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے جنھوں نے ایک عرصے سے ریاست کو نشانہ بنا رکھا ہے۔
اس حکمتِ عملی سے وادی بغاوت کی آخری چنگاریوں کو ہوا دینے کی کوششوں کا بھی سدِباب ہو جائے گا۔