Monday, 21 May, 2007, 09:54 GMT 14:54 PST
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت اور لال مسجد کے درمیان کشیدگی کا ایک اور راونڈ کسی کارروائی کے نہ ہونے کی صورت میں پیر کی صبح ختم ہوگیا۔ تاہم یہ کسی صورت بھی آخری دور نہیں تھا۔
مقامی انتظامیہ نے پیر کی صبح مسجد کو جانے والے تمام راستے کھول دیئے۔ قریبی پولیس سٹیشن پر تعینات اضافی نفری اور رینجرز کو بھی وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم مسجد کے طلبہ سامنے کی ایک سڑک پر اپنا قبضہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ کشیدگی کی اصل وجہ حکومت کی جانب سے اس تمام صورتحال میں ملے جلے اشارے دینا تھا۔ ایک جانب تو اضافی نفری کی آمد نے کارروائی کے خدشات کو تقویت دی تو دوسری جانب وفاقی اہلکاروں کے بیانات میں بھی ماضی کے برعکس زیادہ سخت دکھائی دیئے۔
مسجد کو جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی اب تک کی کشیدگی میں پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملی۔ اس سے قبل اس طرح کی کارروائی پولیس کی جانب سے نہیں دیکھی گئی تھی۔
ذرائع ابلاغ کا کردار |
حکومت نے اس مرتبہ اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ مسجد انتظامیہ اور حکومت کے درمیان گزشتہ جمعے کو چار پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بات چیت کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دے رہی ہے جوکہ یقینا ایک خطرناک پیش رفت ہے۔
حکومت اور مسجد انتظامیہ کے درمیان ماضی قریب میں مذاکرات کی ناکامی کی اگر جتنے مہتمم ذمہ دار ہیں تو کچھ زیادہ قصور حکومت کا بھی ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں جس شخصیت کو یعنی چوہدری شجاعت حسین کو یہ اہم فرض سونپا گیا ان کی اس طرح کی ماضی کی کارکردگی کوئی اتنی حوصلہ افزا نہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کو ایسا ظاہر ہوتا ہے حکومت اس مسلے میں مذاکرات کی ذمہ داری سونپتی ہے جس میں وہ تعطل کی خواہاں ہوتی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین جس فریق سے بھی ملتے ہیں ان کے مطالبات کو جائز اور حقیقی قرار دیتے ہیں انہیں تسلی دیتے ہیں اور بس بات ختم۔ مذاکرات نہ اس سے آگے بڑھتے ہیں اور نہ پیچھے۔ ان کا ’مٹی پاؤ’ جملہ تو ہر کسی کو یاد ہے۔
مسلم لیگی سربراہ کے ایسے مذاکرات کی مثالیں کم نہیں۔ متحدہ مجلس عمل سے لی کر نواب اکبر خان بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی تک ان کے مذاکرات کا کوئی قابل رشک نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ یہی صورت اب لال مسجد کے قضیے میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔
اس سارے تناؤ میں کچھ ’دوش‘ یقیناً قومی میڈیا کا بھی ہے خصوصاً الیکٹرانک چینلز کا۔ اضافی پولیس کی آمد کی خبر سے لے کر سڑکوں کی بندش جیسی خبروں کو تمام دن ایسے نشر کیا کہ حکومت کی جانب سے کارروائی آئی کہ آئی ہی لگی۔
اسی میڈیا ہائپ کی وجہ سے کل رات مدرسے کے طلبہ سے زیادہ صحافی اور عام لوگ مسجد کے باہر گھنٹوں حکومتی کارروائی کا انتظار کرتے رہے۔ اتنی بڑی تعداد میں تماشائیوں کی موجودگی میں کوئی کارروائی کیسے کر سکتا ہے۔ شاید یہی میڈیا ہائپ حکومت کے آڑے آیا۔
ایک مرتبہ پھر بظاہر حکومت اس قضیے کے حل میں ناصرف ناکام ہوئی ہے بلکہ اسے دوام دینے میں کامیاب بھی رہی ہے۔ کسی بھی مسئلے کے حل کے کئی طریقے ہوتے ہیں اگر کوئی کرنا چاہیے تو۔
دیکھیں اگلا راونڈ کب اور کیسے ہوتا ہے۔