اسلام آباد میں لال مسجد کے مہتمم عبدالرشید غازی نے کہا ہے کہ حکومت نے لال مسجد کے خلاف کارروائی کا ارادہ ترک نہیں کیا بلکہ اس کو مؤخر کر دیا ہے۔
بی بی سی اردو سروس کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اتوار اور پیر کی شب لال مسجد اور مدرسہ حفصہ کے خلاف آپریشن کرنے کا پورا ارادہ رکھتی تھی لیکن ذرائع ابلاغ اور خاص طور ٹی وی چینلوں کی موجودگی کی وجہ سے اس مؤخر کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب پورے اسلام آباد کو سیل کردیا گیا تھا، پولیس اور ریجنرز کی اضافی نفری طلب کر لی گئی تھی، بازار اور مارکیٹیں قبل از وقت بند کروا دی گئی تھیں اور لال مسجد کو جانے والے راستوں کو بند کر دیا گیا تھا۔
عبدالرشید غازی نے کہا کہ اس ممکنہ حکومتی کارروائی کے پیش نظر مقامی ٹی وی چینلوں نے براہ راست نشریات کا آغاز کر دیا تھا اور حکومت نہیں چاہتی تھی کہ عوام یہ مناظر براہ راست دیکھیں۔
بڑے بھائی نہیں مانتے |
انہوں نے کہا کہ کراچی کے تجربے کے بعد حکومت یہ کارروائی خاموشی سے کرنا چاہتی ہے کیونکہ ان کے بقول حکومت خود’چور‘ ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پولیس والوں کو اغواء کرکے طلباء نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا انہوں نے کہا کہ ’آپ کون سے قانون کی بات کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایجنسیاں ماورائے قانون گرفتاریاں یا اغواء کریں گی اور لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنائیں گی تو اس طرح کا رد عمل تو سامنے آئے گا۔
انہوں نے اس موقع پر موجودہ عدالتی بحران کا حوالے بھی دیا اور کہا کہ جب چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی فریاد سنی تو انہیں بھی ہٹا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی ایف آئی آر ہی درج نہیں کی جاتی۔
ایجنسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی نظام نہیں ہ اور ایک شخص جو چاہتا ہے کرتا ہے۔انہوں نے کہا وانا، وزیرستان، بلوچستان اور کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ حکومت کررہی ہے۔
عبدالرشید نے کہا کہ ملک کے ادارے کام نہیں کر رہے یا انہیں کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔
انتظامیہ سے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انتظامیہ ان سے معاملات طے کر کے جاتی ہے اور پھر فون کر دیا جاتا ہے کہ ’بڑے بھائی‘ نہیں مان رہے۔ بڑے بھائی کے بارے میں انہوں نے کہا یہ ایجنسیوں کو ہی کہا جاتا ہے۔
عبدالرشید نے کہا کہ یہ ایجنسیاں ملک کا دفاع کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں جبکہ انہیں سیاستدانوں، مذہنی رہنماؤں اور عوام کے پیچھے لگا دیا گیا۔
ایک موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ طلبا کو پولیس والوں کو اغواء نہیں کرنا چاہیے تھا تاہم انہوں نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کے ماورائے قانون اقدامات کا رد عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا اختلاف کسی سیاسی جماعت یا کسی شخص سے نہیں بلکہ نظام سے ہے۔