BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Tuesday, 29 May, 2007, 14:11 GMT 19:11 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
مہاجرین کی منتقلی کے فیصلے پر ردِعمل
 

 
 
افغان مہاجرین: فائل فوٹو
صوبہ سرحد میں مہاجرین کے دو کیپمس کچہ گھڑی اور جلوزئی بالترتیب پندرہ جون اور اکتیس اگست سے پہلے بند کردیئے جائینگے
صوبہ سرحد کے شمالی اضلاع چترال اور دیر کے عوام نے حکومت پاکستان کی جانب سے پشاور میں مقیم افغان مہاجرین کو ان کے علاقوں میں منتقل کرنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔

دوسری طرف مہاجرین نے بھی ضروری سہولیات کی عدم فراہمی کی صورت میں متبادل کیمپوں میں جانے سے انکار کیا ہے۔

چترال سے منتخب رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت چترال کی پرامن فضا کو مہاجرین کے ذریعے خراب کرنا چاہتی ہے لیکن وہ اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کرینگے اور اگر ضرورت پڑی تو اس کے خلاف تحریک بھی چلائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چترال کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور حکومت مہاجرین کو پاک افغان سرحد پر آنے جانے کی آزادانہ اجازت دے کر ان کی سرزمین کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چترال کے تمام عوام اور منتخب نمائندے اس بات پر متفق ہیں کہ افغان مہاجرین کو کسی بھی صورت میں ان کے علاقےمیں آنے نہیں دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ حکومت پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر پر مشتمل سہ فریقی کمیشن کے فیصلے کے مطابق صوبہ سرحد میں مہاجرین کے دو کیپمس کچہ گھڑی اور جلوزئی بالترتیب 15 جون اور 31 اگست سے پہلے بند کردیئے جائینگے۔

افغان مہاجرین
یو این ایچ سی آر کے مطابق اس وقت صوبہ سرحد میں تیرہ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مختلف کیپموں اور دیگر علاقوں میں رہ رہے ہیں
حکومت نے ان کیمپوں کے مہاجرین کو افغانستان نہ جانے کی صورت میں چترال اور دیر کے متبادل علاقوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ادھر ضلع دیرمیں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اورحکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر مہاجرین کو ان کے علاقے میں منتقل کیا گیا تو اس کے خلاف جلسے، جلوس اور مظاہرے منعقد کیے جائیں گے۔

دیر کے ایک صحافی حلیم اسد نے بتایا کہ مقامی لوگ کے تحفظات ہیں کہ مہاجرین کے آنے سے ان کے علاقوں میں امن وامان کے مسائل پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل دیر میں ایک عوامی اجتماع بھی منعقد ہوا تھا جس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں نے اس حکومتی فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی۔

دوسری طرف پشاور میں مقیم افغان مہاجرین نے چترال اور دیر میں منتقل ہونے کو ضروری سہولیات کی فراہمی سے مشروط کر دیا ہے۔

کچہ گھڑی کیمپ میں مہاجرین کے رہنما حاجی دوست محمد نے بتایا کہ اگر حکومت پاکستان اور مہاجرین کےلیے اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ایچ سی آر پناہ گزینوں کو تعلیم، صحت عامہ اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کرسکتا ہے تو وہ دوسرے کیمپوں میں منتقل ہونے کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ یو این ایچ سی آر کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت صوبہ سرحد میں تیرہ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین مختلف کیپموں اور دیگر علاقوں میں رہ رہے ہیں جن میں پانچ لاکھ تراسی ہزار ضلع پشاور میں مقیم ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران دو لاکھ سے زائد مہاجرین رضاکارانہ طور پر افغانستان جا چکے ہیں۔

 
 
اسی بارے میں
تین برس میں مہاجرین کی واپسی
07 February, 2007 | پاکستان
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد