Friday, 02 March, 2007, 02:47 GMT 07:47 PST
اس ہفتے امریکی نائب صدر ڈک چینی کے پاکستان کے مختصر دورے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں آتا رہا ہے کہ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف پر افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں اضافے کے لیے شدید دباؤ ڈالا ہے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کی نامہ نگار بابرا پلیٹ کہتی ہیں کہ اِس بڑھتے امریکی دباؤ پر پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز نظر آ رہا ہے۔
امریکی نائب صدر ڈک چینی کے دورے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے دفتر سے ایک خاصہ تلخ بیان جاری کیا گیا جس کی جھنجلاہٹ کی گونج پاکستان کے اخباروں میں بھی محسوس کی گئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ نیٹو افواج افغانستان کی تعمیر نو میں ناکام رہی ہیں اور افعان حکومت ملک کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام ہے۔ کئی ایسے جنگجو سردار جنہوں نے ایک لمبے عرصے سے جاری خانہ جنگی میں طاقت کا غلط استعمال کیا تھا اب وہ مغرب کے اتحادی ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں یہ بھی آیا ہے کہ افغانستان میں نیٹوں فوجی کی کارروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے مقامی طور پر طالبان کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں یہ اندیشہ پایا جاتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف مزید کوششیں کرنے کے امریکی حکم کا مطلب علاقے میں مبینہ ٹریننگ کیمپوں پر فضائی حملے کرنا ہے۔
پاکستان میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماضی میں اِس طرح کے حملوں کا نتیجہ پاکستان میں خود کش بم حملوں کے ایک سلسلہ کی شکل میں سامنے آیا تھا اور اس کے علاوہ طالبان نواز گروہوں کی بھرتی میں اضافہ بھی ہوا تھا۔ اور یہ کہ مزید حملوں کا بھی یہی نتیجہ نکلے گا۔