|
چینی صدر کا دورہ: توقعات اور امکانات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
چین کے صدر کے دورہ پاکستان کے دوران ساری دنیا کی نظریں دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی بجلی گھروں کے معاہدوں پر لگی ہوئی ہیں لیکن جنوب مشرقی ایشیا کی دفاعی اور جغرافیائی صورت حال کے تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ دورہ خطے پر دور رس اثرات مرتب کرے گا۔ چین کے صدر ہو جنتاؤ جمعرات کو چار روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تو اسلام آباد میں حکومتی سطح پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں اس دورے کی اہمیت ایٹمی تعاون تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا سایہ پورے جنوبی ایشیا کے دفاعی منظر پر چھاتا نظر آئے گا۔ پاکستان کے ماہر دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ اس دورے کا بنیادی مقصد تو چین اور پاکستان کی دیرینہ دوستی کی پورے خطے کے لیے اہمیت کو ابھارنا ہے۔ ڈاکٹر رضوی کے مطابق ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہمیشہ نسبتاً اونچی سطح کے رہے ہیں۔ ’بنیادی طور پر چین پاکستان اور باقی دنیا کو باور کرانا چاہتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات برصغیر کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔‘
دوسری طرف چین پاکستان کو یہ تسلی دینا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کی ایٹمی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے پوری طرح آگاہ ہے بلکہ ان ضروریات کو پورا کرنے میں ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے پاکستان پر جس طرح کا بیرونی دباؤ ہے اس سے نبٹنے کے لیے بھی چین پاکستان کی مدد کرے۔ دونوں ممالک کے صدور میں خوشگوار ماحول میں ہونے والی ملاقات سے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ سب کچھ خوش اسلوبی سے ہو جائے گا۔ لیکن اسلام آباد میں مقیم دفاعی تجزیہ کار اور مصنفہ عائشہ صدیقہ آغا پاکستان کے سیکیورٹی سے متعلق پالیسی ساز اداروں کی سوچ میں چند نئے خدشات کا ذکر کرتی ہیں۔ عائشہ آغا کا کہنا ہے ’اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا کے روایتی دفاعی پس منظر میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ آنے والے وقت میں ہو سکتا ہے کہ ہم اس خطے میں طاقت کے توازن کا ایک نیا نقشہ دیکھیں جو خصوصاً پاکستان کے لیے کچھ خدشات پیدا کر سکتا ہے۔‘ عائشہ صدیقہ کے مطابق برصغیر میں چین کی موجودہ دلچسپی کا محور علاقے میں ایٹمی توانائی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی منڈی ہے جس کی موجودہ مالیت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ لیکن اگر چین اس منڈی میں امریکہ کا تجارتی حریف بن کر ابھرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے اپنے آپ کو اس خطے میں امن کے سفیر کے طور پر پیش کرنا ہو گا۔ عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ’چین کی اس منڈی میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہندوستان میں امریکہ کے ساتھ مل کر ایک تکونے تجارتی معاہدے کا حصہ بننے کو تیار ہو گیا ہے جو سب کے لیے ہی ایک نئی بات ہے۔ اس وقت پاکستان کے مقتدر حلقوں میں اس پر کچھ نہ کچھ تشویش تو ضرور ہو گی۔‘ لیکن ڈاکٹر رضوی ان خدشات کو دو مختلف پس منظر میں پرکھتے ہیں۔ ان کے مطابق درمیانی مدت کے تناظر میں چین کے پاکستان اور ہندوستان سے تعلقات میں ایک ساتھ بڑھائی میں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا۔ البتہ لمبی مدت کے تناظر میں ہو سکتا ہے کہ چین اور ہندوستان میں سرحدی یا دیگر مسائل پر کشیدگی پیدا ہو جائے۔ اس کے برعکس پاکستان سے چینی تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ صرف اور صرف بہتری اور مضبوطی کی توقع ہی کی جا سکتی ہے اور پاکستان کو اس سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ سب تو تجزیہ نگاروں کی سوچ ہے۔ پیش منظر میں اس وقت صرف وہ تیاریاں نظر آ رہی ہیں جو پاکستانی دارالحکومت میں گزشتہ روز سے جاری ہیں۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی قدآور تصاویر رنگ برنگی جھنڈیوں کے بیچ بڑی بڑی شاہراوں پر آویزاں ہیں۔ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ چینی صدر کی پاکستان میں مصروفیات کی پوری تفصیل فی الحال دینے سے گریزاں ہیں۔ لیکن کچھ حلقوں میں قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ اس دورہ میں گوادر بھی جائیں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان کی بگڑی ہوئی صورتحال کے باوجود بھی چینی صدر گوادر جاتے ہیں تو چین کے لیے پاکستان کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت شاید ہی کچھ ہو۔ | اسی بارے میں دس سال بعد چینی صدر بھارت میں 20 November, 2006 | انڈیا چینی صدر دلی میں20 November, 2006 | انڈیا چین، بھارت: تیرہ معاہدوں پردستخط 21 November, 2006 | انڈیا ہندوستان اور چین : دشمنی سے دوستی کا سفر21 November, 2006 | انڈیا چینی صدر کی ممبئی آمدپر احتجاج23 November, 2006 | انڈیا چین اور پاکستان کے درمیان جوہری ڈیل متوقع 23 November, 2006 | پاکستان | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||