Saturday, 14 January, 2006, 11:31 GMT 16:31 PST
ایوب ترین
بلوچستان
بلوچستان کے علاقے کاہان میں ہفتے کی صبح ایک بار پھر بمباری شروع ہو گئی ہے۔ مری قبائل کے مطابق فرنٹیئر کور کی جانب سے بھاری گولہ باری کے ساتھ عام شہریوں کو نشانہ بنا رکھا ہے تاہم انتظامیہ ابھی تک خاموش ہے۔
دوسری جانب ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں کشیدگی ابھی تک برقرار ہےتاہم مقامی انتظامیہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ آج ان بارہ افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی جائیں گی جو عید کے دن فرنٹیئر کور کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔
کوئٹہ کے شمال مشرق میں تقریباً 450 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع کوہلو کے علاقوں کاہان، دامان، شمیل، سوردو اور اینخ کے علاقوں میں آج صبح سے بمباری کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
مری قبیلے کے ایک سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر ہمایوں مری کے مطابق فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے اب زمین سے بھی بے گناہ شہریوں پر گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس سے مری قبیلے کے لوگوں میں خوف و حراس پھیل گیا ہے اور سینکڑوں لوگ گھر بار چھوڑ کر شدید سردی میں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ علاقے میں انتظامیہ کی جانب سے دہشت گردی کے الزام میں عام لوگوں کی گرفتاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سترہ دسمبر سے شروع ہونے والی اس کارروائی کے دوران اب تک پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب آج بگٹی شہر میں اب تک خاموشی ہے البتہ سوئی میں کشیدگی برقرار ہے۔ بگٹی قبیلے نے الزام لگایا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے درمیان بڑی سڑک کو عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے تاکہ فرنٹیئر کور کی گولہ باری سے خوفزدہ لوگ ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر سوئی نہ جا سکیں۔
تاہم ڈیرہ بگٹی کے ڈسٹرک کوآرڈینیشن آفیسر عمدالصمد لاسی جو کافی دنوں سے سوئی میں موجود ہیں انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سڑک صرف چوری کی گاڑیوں کے لیے بند کی گئی ہے۔
ان کے مطابق اس علاقے میں گزشتہ کئی سالوں سے چلنے والی گاڑیاں چوری کی ہیں جو سندھ اور پنجاب سے چوری کر کے یہاں لائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روٹ پرمٹ اور درست کاغذات والی گاڑیوں کے چلنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
ڈی سی او ڈیرہ بگٹی نے یہ بھی بتایا کہ ان بارہ افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے کی کوشش کی جائے گی جو عید کے روز فرنٹیئر کور کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے تھے۔
جبکہ بگٹی قبیلے کے ترجمان شاہد بگٹی نے کہا ہے کہ ان بارہ افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے نہیں کی جا رہیں۔ اس بارے میں ڈی سی او نے بتایا کہ مذکورہ علاقے میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے انتظامیہ کو وہاں سے لاشیں اٹھانے میں دشواری کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے وائس چیئرمین ظہور احمد نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال کافی خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک پچاسی فیصد لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نقل مکانی کرنے والوں میں بہت سی عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں لیکن حکومت نے ان لوگوں کے لیے کسی علاقے میں کوئی کیمپ نہیں بنایا۔
دوسری جانب آج چوتھے روز بھی سوئی میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد نے احتجاجی مظاہر کیا اور حکومت سے بگٹی ہاؤس خالی کرنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے بگٹی ہاؤس کے علاوہ حکومت کی جانب سے پمفلٹ گرائے جانے کی بھی مذمت کی جن میں بگٹی قبیلے کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ نواب اکبر بگٹی کے خلاف بغاوت کر دیں اور ایسا کرنے کی صورت میں حکومت انہیں تحفظ فراہم کرے گی۔