http://www.bbc.com/urdu/

Monday, 05 December, 2005, 22:02 GMT 03:02 PST

باربرا پلیٹ
سلطان والا، پنجاب

’ہم خود کو زندہ جلا لیں گے‘

نوجوان ہونا اور شعور کی زندگی میں قدم رکھنا ایک بہت دلچسپ تجربہ ہوتا ہے لیکن کسی کے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ اس کی مثال تین خان بہنیں ہیں۔ان کی شای بچپن میں ہی ان کے خاندانی دشمنوں سے طے کر دی گئی۔ پاکستان کے علاقے میانوالی میں یہ عام رواج ہے۔

اٹھارہ سالہ عابدہ خان نے بتایا کہ ’جب ہم بڑے ہوئے تو ہمیں علم ہوا کہ ہمارے ساتھ کس قدر ظلم ہوا ہے‘۔ ونی قتل کے برابر ہے، اگر ہم ان لڑکوں سے شادی کر لیتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ہمیں مار دیا جائے‘۔

ونی قبائلی رواج کا حصہ ہے جس میں خون کا بدلہ زبردستی کی شادیوں سے حل کیا جاتا ہے۔

ونی کے نتیجے میں بننے والی دلہن ساری زندگی اپنے خاندان کے مردوں کے اعمال کا قرض چکاتی رہتی ہیں۔

ایک کمیونٹی رکن ضیاء اللہ خان نے کہا کہ ونی کی دلہن کسی غلام کی طرح گھر رہتی ہے۔ کیونکہ وہ دشمن خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لوگ ونی کے رواج کے تحت خون کا بدلہ چکاتے ہیں۔ وہ لڑکی اور اس کے خاندان والوں کو اس طریقے سے تکلیف دیتے ہیں۔

کوئئ نہیں جانتا کہ پاکستان میں کتنی خواتین اس عذاب سے گزرتی ہیں لیکن حکایتیں بتاتی ہیں کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جن میں کچھ لڑکیاں اس کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ونی کے خلاف مہم چلانے والے پنجاب کے علاقے سلطان والا کی خان بہنوں کو اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ انہیں امید ہے کہ یہ بہنیں دوسروں کے لیے ایک مثال بنیں گی۔

ان لڑکیوں کے باپ خان نے بتایا کہ ’جسیے ہی یہ کیس منظر عام پر آیا بیس سے تیس آدمی ہمارے پاس آئے اور وہ اس کے نتائـج پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے‘۔

اس کہانی کا آغاز چودہ سال قبل ہوا۔ کہ جب لڑکی کے چچا محمد اقبال خان نے اپنے کزن کو قتل کر دیا اور موت کی سزا سے بچنے کے لیے چھپ گیا۔

اسی دوران قبائلی کونسل نے اسے معافی کی پیشکش کی اور یہ شرط رکھی کہ وہ اس کے بدلے اپنی بیٹی اور چار بھتیجیوں کو ونی کرے۔

لڑکیوں کے چچا نے بتایا کہ ’جب میں نے اس بات سے انکار کیا تو وہاں موجود لوگوں نے کہا کہ تم اس سے نہیں بچ سکتے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اپنی جان بچاؤ بصورت دیگر تم مار دیے جاؤ گے اور اسی ڈر کی وجہ سے میں اس کے لیے راضی ہو گیا۔‘ خوف کی وجہ یہ بھی تھی کہ دشمن برابر والےگھر میں رہتے ہیں۔

دونوں گھر ایک احاطے میں واقع ہیں جس کے اطراف سرخ اینٹوں کی دیواریں ہیں۔ ایک چھ میٹر چوڑی سڑک دونوں گھروں کو الگ کرتی ہے۔

محمد اسلم خان اس شحض کے ماموں ہیں جسے محمد اقبال نے قتل کیا۔ ان کا بیٹا ان لڑکیوں میں سے ایک کا منگیتر ہے۔

آنکھوں سے آگ برساتے ہوئے سفید بالوں کے ساتھ محمد اسلم اپنی کہانی سنانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’انہو ں نے ہمیں بربریت کا نشانہ بنایا، انہوں نے ہماری بے عزتی کی۔‘

ہمارے رسم و رواج کے مطابق لڑکیاں ہماری بہوئیں ہیں۔ اگر وہ ہمارے گھر نہیں آتیں، تو دونوں خاندانوں میں جنگ شروع ہو جائے گی جس کے نتیجےمیں دو سو افراد مارے جائیں گے۔

قبائلی انصاف کا ان کا مطالبہ قانون سے متصادم ہے۔ حکومت نے اس سال کے آغاز میں ونی کی رسم پر پابندی لگا دی تھی۔

لیکن اس پابندی پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ پولیس اس پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنا رہی ہے۔ ضیاء اللہ اس بارے میں معلوم کرنے کے لیے کہ ایسا کیوں ہے ضلع کے پولیس سٹیشن بھی گئے۔

پولیس چیف زیارت کیانی کے مطابق قانون ونی کے تحت لڑکی لینے اور دینے والوں کو سزا دیتا ہے۔’ اگر لڑکیوں کی ان کی مرضی کے خلاف شادی کی جارہی ہے، اگر انہیں اپنے والدین کے خلاف شکایت ہے تو وہ یہاں آسکتی ہیں‘۔

اس کے جواب میں خان کا کہنا ہے کہ ’یہ ناممکن ہے۔ کوئی لڑکی پولیس سٹیشن نہیں جائے گی اور جا کہ یہ نہیں کہے گی کہ جاؤ اور جا کہ میرے والدین کو گرفتار کر لو۔‘

لڑکیوں کے والد جہاں خان نیازی ان کے بہت بڑے حمایتی ہیں لہذا ایسا ہونا ممکن نہیں کہ لڑکیاں ان سے الگ کو کر پولیس سٹیشن جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ گن پوائنٹ پر لڑکیوں کو ونی کرنے پر راضی ہوگئے تھے لیکن انہوں نے اپنی بیٹیوں کو گاؤں سے دور بھحج دیا تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں‘۔

انہوں نے کہا کہ’پڑھ لکھ جانے کے بعد ہی انہوں نے اس رواج کے خلاف علم بغاوت بلند کیاہے۔ جاہل لڑکیاں بات نہیں سمجھ سکتیں اور نہ ہی اپنی بات کا اظہار کر سکتی ہیں۔ میری بیٹیاں معصوم ہیں کیوں میں ان کے حقوق اور مرضی کے خلاف جاؤں یا ان کا گلا گھونٹوں‘۔

عابدہ اور ان کی بہنیں مسلح ہیں۔ اس قدامت پسند علاقے میں خواتین شاذونادر ہی ہتھیار رکھتی ہیں۔

آمنہ نےکہا کہ ’اگر ہم یہ قدم نہیں اٹھاتے تو حکومت کچھ نہیں کرتی‘۔

’ہم حکام سے اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ اور ذرائع ابلاغ کو اس معاملے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک طویل جدوجہد ہے۔ لیکن اگر ہم انصاف حاصل کر لیتے ہیں تو دوسری خواتین بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گی‘۔

ان لڑکیوں کو نہیں معلوم کہ وہ اس میں فتحیاب ہوں گی بھی یا نہیں۔

عابدہ نے کہا اگر حکومت ہماری مدد نہیں کرے گی تو ہم خودکشی کر لیں گے۔

’ہم ونی کے خلاف خود کو زندہ جلا لیں گے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ اسلام کے خلاف ہے لیکن ونی بھی تو ہے اور خدا ہمیں معاف کردے گا‘۔