http://www.bbc.com/urdu/

Thursday, 02 June, 2005, 23:59 GMT 04:59 PST

علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام لاہور

کٹاس میں مندروں کا سنگ بنیاد

بھارتی جنتا پارٹی کے صدر اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف ایل کے ایڈوانی نے ضلع چکوال سے پنتیس کلومیٹر دور ’کٹاس راج‘ کا دورہ کیا اور وہاں کے مندروں کی تعمیر نو کا سنگ بنیاد رکھا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ موقع دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کا نکتہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

لعل کرشن ایڈوانی جمعرات کی دوپہر کو کٹاس کی یاترا کے بعدلاہور پہنچ گئے۔
لاہور میں انہوں حکمران مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین کی جانب سے دئیے گئے عشائیہ میں شرکت کی اس کے علاوہ انہوں نے مقامی ہوٹل میں جنوب ایشیا کے صحافیو ں تنظیم ’سفیما‘کے زیر اہتمام ہونے والی ایک تقریب سے بھی خطاب کیا۔

سفیما کی تقریب سے خطاب کرتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ’ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھارتی رہنمانے پاکستان میں کسی مندر کاسنگ بنیاد رکھا ہو۔ ‘

تاریخ دانوں کے مطابق چھ ہزار قبل مسیح کٹاس شہر بارہ میل پر پھیلا ہوا تھا جو اب سکڑ کر ایک گاؤں رہ گیا ہے۔

مسٹر ایڈوانی نے کہا کہ ’کٹاس راج کے دورے کے لیے وہ پاکستان کی حکومت اور عوام کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ’ وہ چودھری شجاعت حسین کے بے حد ممنون ہیں کہ جب وہ بھارت آۓ تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ بھارتی کے ماہرین آثار قدیمہ کی مدد سے پاکستان میں ضلع چکوال کے نزدیک واقع ایک کٹاس کے مندروں کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے آثار قدیمہ کے ماہرین کی زیر نگرانی جلد یہ مندر آباد ہوجائیں گے۔

ایل کے ایڈوانی نے کہا کہ’دنیا بھر کے ہندووں کے لیے کٹاس کے مندر بہت اہم ہیں ان کا ذکر ہندؤں کی کتاب مہابھارت میں بھی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ’ پانچ پانڈو جب بن واس لیکر نکلے تھے تو ایک پانی کی تلاش میں کٹاس پہنچا تھا جہاں یکشا اور دھرما جی کے سوال جواب ہوۓ تھے جو آج بھی فلسفہ کے لحاظ سے اہم ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایک سوال تھا کہ دنیا کی حیرت انگیز چیز کیاہے اور دھرما جی نے جواب دیا تھا کہ انسان فانی ہے لیکن ہر انسان سمجھتا ہے کہ موت بس دوسروں کے لیے ہے اور اس نے زندہ رہنا ہے۔

کٹاس کے مندر کے دورے کے موقع پر انہیں وزیر اعظم من موہن سنگھ کے آبائی گاؤں کے رہائشی اور من موہن کے پہلی سے لیکر چوتھی جماعت تک کے کلاس فیلو راجہ محمد علی نے ملاقات کی اور کٹاس کے مندر کی ایک تصویر دی ہے اور درخواست کی کہ ایل کے ایڈوانی یہ تصویر ان کے کلاس فیلو من موہن سنگھ تک پہنچا دیں۔

ایل کے ایڈوانی نے کہا کہ’ پاکستان اور بھارت میں مذہب کی اپنی جگہ ہے صدر مشرف ہوں یا بے نظیر۔۔۔۔۔۔ وہ جب بھارت آۓ تو اجمیر شریف ضرور گئے تھے اور اب وہ پاکستان آۓ تو انہوں نے کٹاس کے مندر کا دورہ کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ’ جب مندروں کی تعمیر مکمل ہوجاۓ گی تو انہیں امید ہے کہ وہ زندہ مندر ہونگے جن میں پوجا بھی ہوگی اور بھارت سے ہندو اس کی یاترا کے لیے بھی آسکیں گے۔‘

تاریخ دانوں کے مطابق کٹاس راج کا ست گھرا مندر تین ہزار قبل از مسیح کا ہے۔
لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جاۓ۔

انہوں نے کہا کہ’ انہیں پاکستان کے دورے کی دعوت انیس سو ننانوے سے ملنا شروع ہوگئی تھی پھر خورشید محمود قصوری ، چودھری شجاعت حسین ، وزیر اعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف نے اپنے اپنے دورہ بھارت میں انہیں پاکستان دورے کی دعوت دی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ مہینے جب بھارتی پارلیمنٹرین پاکستان کادورہ کرکے لوٹے تو ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے چھ اراکین لوک سبھا نے انہیں ملکر کہا کہ پاکستان میں ہر کوئی پوچھتا ہے کہ ایڈوانی کب آۓ گا؟‘

تو میں نے کہا ’کیا ایڈوانی کے سر پر سینگ ہیں؟‘

انہوں نے اپنی تقریر میں اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی کہ وہ یا ان کی جماعت پاکستان سے تعلقات کے خلاف ہے انہوں نے کہا کہ تاثر اور حقائق میں بڑا فرق ہوتا ہے اور موجودہ امن عمل کاآغاز انہی کی جماعت کے دور حکومت میں ہوا تھا۔

ان سے پوچھاگیا کہ جیسے انہوں نے پاکستان میں کٹاس کے مندروں کی تعمیر نو کا سنگ بنیاد رکھا ہے کیا وہ بابری مسجد کی تعمیر نو کے منصوبے کا افتتاح مولانا فضل الرحمان سے کروانا چاہیں گے تو مسٹر ایڈوانی نے مسکرا کر کہا کہ ’میں اس تجویز کا دھیان رکھوں گا‘۔

انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کا واقعہ ان کی زندگی کا افسوسناک ترین واقعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی صدر مشرف سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ صدر مشرف کی اس بات سے متفق ہوۓ کہ’ دونوں ملکوں میں عوام نے امن و صلح کے عمل کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ’ دو سال میں بہت فرق پڑا ہے اور فضا بدلی ہوئی ہے۔‘
کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیئے جانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’وہ اس کے حق میں دلائل پر پوری تقریر کرسکتے ہیں لیکن ابھی اس کا موقع نہیں ہے اور نہ اس سے امن عمل کو کوئی تقویت ملے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ’ وہ ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتے جس سے صدر مشرف اور وزیر اعظم من موہن سنگھ کے یکساں ہدف کے متعین ہونے اور اس کی جانب جانے کی کوشش میں رکاوٹ ڈلے۔‘

انہوں نے اسلحہ کم کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہرملک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وسائل عوام پر خرچ کرے لیکن ہر ملک کی سیکورٹی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔‘