http://www.bbc.com/urdu/

Monday, 21 June, 2004, 18:59 GMT 23:59 PST

ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

نیک اپنے ’خالق‘ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا

وہ جتنی تیزی سے شہرت کے افق پر چھایا اتنی ہی تیزی سے ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا۔

سمجھ نہیں آتا کہ نیک محمد کے بارے میں کہاں سے بات کا آغاز کروں اور کہاں اختتام۔ بہت مختصر مدت کے لیے اس سے شناسائی رہی، ایک دو ملاقاتیں ہوئیں، دو چار مرتبہ ٹیلیفون پر بات اور بس۔

ستائیس سالہ نیک محمد ایک ایسا نوجوان ثابت ہوا جو ہوش سے زیادہ شاید جوش کے بہکاوے میں آگیا اور چلا گیا۔

اس کی موت کا ذمہ دار مجھے اس کی کم عمری سے زیادہ اس کے حالات نظر آتے ہیں۔

وہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا اور زندگی گزاری جہاں ذرائع ابلاغ اتنے ترقی یافتہ نہیں، جہاں باہر کی دنیا سے نہ ہی زیادہ رابطہ ہے اور نہ ہی اس کی نزاکتوں سے آگاہی۔

وہاں تعلیم عام نہیں اور جو خوش قسمت ایسا کچھ کر پاتے ہیں ان کا آغاز مدرسے سے ہوتا ہے۔ بعد میں چند نوجوان سکول بھی چلے جاتے ہیں لیکن مختصر مدت کے لئے۔ چھوٹے موٹے کاروبار کے علاوہ وہاں کوئی کام نہیں۔

پڑھ لکھ لینے کے بعد اکثر نوجوان بےروزگاری کے دن بندوقوں سے کھیل کر گزارتے ہیں۔ مذہب کا کافی اثر رہتا ہے ان کے ذہنوں پر۔ فارغ وقت بہت ہے لہذا نماز روزے میں گزرتا ہے۔ ایسے میں مذہبی قدامت پسندی قدرتی عمل ہے۔ اور جب علاقے میں روسیوں کے خلاف جہاد ہر شخص کی زبان پر ہو تو کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔

یہی کچھ شاید نیک محمد کے ساتھ بھی ہوا۔ انیس سو اسی کی دہائی کے اوائل میں افغانستان میں جہاد کا جو پودا پاکستان میں لگایا گیا نیک محمد اسی کا ایک پھل تھا۔

وہ شاید ایک ایسا فرینکین سٹائن تھا جو خود اپنے ’خالق‘ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ لہذا اس کا خاتمہ اس کے بنانے والے کے لئے ضروری اور یقینی تھا۔

بہت سے لوگ اس کی موت کی وجوہات میں اس کے ذرائع ابلاغ کے بے تحاشا استعمال کو بھی قرار دیتے ہیں۔ آئے دن وہ انٹرویو دے رہا تھا۔ خود ٹیلیفون کرتا اور بات کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا۔

اس کے ناقدین اسے شہرت کا بھوکا قرار دیتے ہیں۔ اسے میڈیا کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اسے علم تھا کہ میڈیا کا سہارا لے کر وہ اپنا پیغام دنیا تک پہنچا سکتا ہے لیکن شاید وہ یہ بھول گیا کہ یہ میڈیا دو دھاری تلوار ہے جو فائدہ تو دیتی ہے لیکن نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب کراچی تشدد کی آگ میں جل رہا تھا، وزیرستان میں القاعدہ کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کو تیار نہیں تھا اور حکومت کی رٹ ان حالات کی وجہ سے کمزور دیکھائی دے رہی تھی اس کی دھمکیاں کہاں کسی کو بھا سکتی تھیں۔

وہ صرف اپنی دھُن کا پکا تھا۔ چند ہی ملاقاتوں میں مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اور اس کے ساتھی انتہائی مضبوط اعتقاد کے مالک ہیں۔ ان کی سوچ تبدیل کرنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ وہ بقول ان کے اللہ کی راہ میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ دنیاوی ضروریات اور لالچ سے وہ بالاتر تھے۔

نیک محمد اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ جتنا وقت گزارا اور جو دیکھا یا سنا اس کے بعد میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ لوگ یہ سب کچھ پیسوں کے لیے کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد پیسہ ہر گز نہیں اسی لئے ان کا کوئی خرچہ بھی نہیں۔ ان کا اپنا ایک منظم نیٹ ورک ہے جس کا اندازہ لگانا باہر کے کسی شخص کے لئے ناممکن ہے۔

نیک محمد بذاتِ خود ایک سادہ اور شرمیلہ سا انسان تھا۔ ایک ایسا شخص جو کسی کو جلد دوست بنانے کا قائل نظر نہیں آتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کو جاننا کافی مشکل ہوجاتا تھا۔ وہ ایسا انسان تھا جو اپنے غصے اور نفرت کو بھی چھپانا نہیں جانتا تھا۔ اور یہی نفرت بھرے بیانات اس کی موت کا شاید سبب بنے۔

اس کے حکومت اور فوج مخالف بیانات سے واضح تھا کہ اس کا وجود خطرے میں ہے۔

لیکن دِلّی میں گزشتہ ہفتے کی صبح ہندوستان ٹائمز کے اندر کے صفحے پر اس کی تین پیراؤں کی خبر اور اس کی تصویر نے چونکا دیا۔ یہ اتنا جلد ممکن ہوسکے گا یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک ایسے شخص کو جسے سب جنگی حکمت عملی کا ماہر قرار دیتے تھے کیسے اتنا جلد اور باآسانی ہلاک کر دیا جائے گا؟ یہ ایک سوال ہے جو شاید اب سوال ہی رہے۔

کیا کوئی دوسرا نیک محمد سامنے آسکے گا یا یہ آخری تھا؟ اس سوال کا جواب میں نے وانا کے قریب نیک محمد کے کلوشہ گاؤں میں تلاش کرنے کی کوشش کی جب میں اپریل کے مہینہ میں نیک محمد سے ملاقات کے لیے وہاں گیا تھا۔

گاؤں پہنچے تو اُس کے مسمار کئے گئے مکانات کے درمیان ایک چھوٹے سے دس سالہ بچے کو پوری طرح مسلح دیکھا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ ایک اور مطلوب شخص محمد شریف کا بیٹا ہے۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ نیک محمد تو چلا گیا لیکن اسّی کی دہائی میں بویا گیا پودا اب بھی اس علاقے میں گہری جڑیں رکھتا ہے۔