Wednesday, 09 June, 2004, 09:41 GMT 14:41 PST
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
صبح کا وقت ہے اور وانا بازار کے قریب ایک کھلے میدان میں ایک شخص ڈھول زور سے پیٹے جا رہا ہے۔ اس کی مخصوص تھاپ دور دور تک سنی جا سکتی ہے۔ ہر عمر کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں اس کی جانب کھینچے چلے آ رہے ہیں۔
ہر ایک کے کندھے سے بندوق یا کلاشنکوف لٹک رہی ہے۔ چند منچلے نوجوان دل پر قابو نہ رکھ سکتے ہوئے ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی تہوار یا شادی کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں۔
یہ القاعدہ کے مشتبہ غیرملکی عناصر کے خلاف تازہ کارروائی کے لئے تیاری ہو رہی ہے یعنی ایک مسلح قبائلی لشکر اکٹھا ہو رہا ہے۔ تعداد پوری ہونے پر لشکر اپنے ہدف کی جانب کوچ کرتا ہے لیکن ڈھول اس کے آگے آگے اس کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
مختلف مواقع پر ڈھول بجانا اور اس پر اتنڑ ناچ اس علاقے میں بسنے والے پختون قبائل کی صدیوں پرانی روایات کا حصہ ہے۔ اسی طرح لشکر کشی بھی یہاں کی ایک اہم روایت ہے۔ یہ لشکردرجن بھر افراد کی طرف سے قریبی گاؤں میں کسی سے بدلہ لینے کی خاطر تشکیل دیا ہوا یا پھر کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف انیسو سینتالیس کا ہزاروں افراد پر مشتمل ہو تعداد کچھ بھی ہوسکتی ہے۔
لشکر کی طلبی اور تشکیل میں ڈھول کا اہم کردار ہے۔ شادی بیاہ کے علاوہ ڈھول کا بجنا کسی خطرے یا ہنگامی صورتحال کا اعلان ہوتا ہے اور تمام قبائلیوں کو اس کے گرد اکٹھا ہونا ہوتا ہے۔
ایک قبائلی مصنف حضرت خان کا کہنا ہے کہ ’مواصلات کے ذرایع نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں آج بھی اس ڈھول کی افادیت برقرار ہے۔ یہ لشکر کو اکٹھا کرنے، اعلان جنگ اور بعض اوقات لشکر کے رضاکاروں کی تفریح کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔’ لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کا ایک اہم مقصد رضاکاروں کو جذبہ دلانا اور انہیں لڑنے مرنے کے لئے تیار کرنا بھی ہے۔
جنوبی وزیرستان میں مقامی احمدزئی وزیر قبائل کا چار ہزار رضاکاروں پر مشتمل مسلح لشکر چند روز سے شکئی کے مقام پر القاعدہ کے مشتبہ افراد کی تلاش کا کام کر رہا ہے۔ اب تک اسے کسی غیرملکی کو پکڑنے میں کامیابی نہیں ملی۔
ایسے میں کئی لوگوں کے لئے اس طرح ڈھول کی تھاپ کے سنگ تلاش کا کام کرنا ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ڈھول کی آواز کوسوں دور تک سنائی دیتی ہے اور ایسے میں یہ کسی بھی مطلوب شخص کو لشکر کے پہنچنے سے قبل ہی فرار ہونے کا موقعہ دے سکتی ہے۔
پشاور میں پشتو اکیڈیمی کے سربراہ ڈاکٹر راج ولی خٹک کا کہنا ہے کہ انہیں بھی اس تلاش کے دوران ڈھول کے استعمال کی وجہ معلوم نہیں۔ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قبائلی روایت ضرور ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں سیاست کا عمل دخل بھی ہے۔ ہوسکتا ہے قبائلیوں کا مقصد مطلوب افراد کی گرفتاری نہیں بلکہ انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا ہو۔’
ادھر پاکستان نے بھی ان غیرملکیوں کے لئے دو شرائط رکھی ہیں: یا تو وہ حکومت کے پاس اپنا اندراج کروایں یا پھر یہ علاقہ چھوڑ دیں۔ چونکہ اندراج کی تمام کوششیں اب تک ناکام ہوچکی ہیں لہذا علاقہ بدر کرنے کی پالیسی شاید حکومت کو بھی قابل قبول ہو۔
خیال ہے کہ اس علاقے میں القاعدہ اور طالبان کے عسکریت پسندوں کے لئے کافی حمایت پائی جاتی ہے۔ انہیں اب بھی مجاہدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جبکہ سرحد پار افغانستان میں موجود امریکی فوجی اسی علاقے سے القاعدہ اور طالبان کے متحرک ہونے کے شبہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
لیکن ایک قبائلی سردار نے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈھول کے استعمال کا دفاع کیا۔ ان کا موقف تھا کہ ڈھول کے بغیر لشکر نامکمل ہے۔ ’آج کل کے حالات میں اس کا استعمال اور بھی ذیادہ ضروری ہے۔ اتنے بڑے لشکر کی تشکیل اور اسے چلانا کوئی آسان بات نہیں۔‘