|
مبالغہ آرائی سے باز رہیں: قصوری | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ مبالغہ آرائی پر مشتمل بیانات دینے سے اجتناب کرنا ہوگا تا کہ دونوں ممالک میں غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں، اور انہیں میڈیا کے ذریعے سفارتکاری نہیں کرنی چاہیے۔ پیر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے دورے پر تھے کہ بھارت کی جانب سے بعض بیانات جاری ہوئے ہیں، جس میں کہا گیا تھا کہ ’ سرحدوں میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی، ’ استصواب رائے نہیں ہوگی، ’ دونوں ممالک میں تعلقات کی رہنمائی شملہ معاہدے سے لی جائے گی، اور وزیر خارجہ قصوری کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے دیئے گئے ایسے بیانات کا جواب دینا ان کے لئے ضروری ہے۔ دو صفحات پر مشتمل ان کا تفصیلی بیان پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کی پیر کے روز ہفتہ وار بریفنگ کے موقعہ پر جاری کیا گیا۔ بیان میں وزیر خارجہ قصوری کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن کی بنیاد پر حل قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ ان کے بقول اسٹیٹسکو( جو جیسا ہے ویسا رہے ) رہنا مسئلے کا حل نہیں ہے اور جموں و کشمیر کے تصفیہ طلب تنازعے نے دونوں ممالک کو تین جنگوں کی طرف دھکیلا ہے۔ قصوری کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے تمام مسائل کا ایسا حل تلاش کرنے کے لئے جامع مذاکرات کا عمل شروع کر رکھا ہے جو پاکستان ، بھارت اور کشمیریوں کے لئے قابل قبول ہو۔ ان کی رائے ہے کہ وہ ایسا کچھ نہ کریں جس سے امن مذاکرات میں رخنہ پڑے ۔ شملہ معاہدے کی روشنی میں معاملات آگے بڑھانے کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے مسائل کے حل کے لئے یہ کہا ہے تو پھرٹھیک ہے لیکن اگر بھارت کا کشمیر معاملے کو منجمند کرنا چاہتا ہے تو پھر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لئے پیش رفت نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بھارت اور چین کے مذاکرات کا طریقہ کار پاکستان اور بھارت کے معاملات پر لاگو نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے بقول مسائل کی نوعیت مختلف ہے۔ وزیر خارجہ کے مطابق چین نے بھارت کے ساتھ سرحدی معاملات نمٹانے اور تائیوان کا معاملہ حل کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ حکمت عملی اختیار کی تھی۔ خورشید قصوری نے پاکستانی قیادت کے بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ ، حکمران جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور وزیر خارجہ سے رابطوں کے حوالے سے کہا ہے کہ دونوں ممالک میں مذاکرات جاری رکھنے کے لئے مثبت رائے پائی جاتی ہے جو اچھی بات ہے۔ لہٰذا ان کی رائے ہے کہ پہلے سے طے کردہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جا ئے۔ علاوہ ازیں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان مسعود خان کا ہفتہ وار بریفنگ میں کہنا تھا کہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کو ’جمپ اسٹارٹ‘ لینا ہوگا اور مذاکرات کا جو کیلینڈر طے ہوا تھا اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ پاک بھارت خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ابھی تاریخ طے نہیں ہوئی، تاہم انہوں نے بتایا کہ اس سطح کی بات چیت بھارت کی سابقہ حکومت نے دہلی میں کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں سے القاعدہ سے تعلق رکھنے والوں کو نکالنے کے لئے حکومت تمام راستے اختیار کرے گی اور معاشی پابندیاں اس سلسلے کی کڑی ہے۔ تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ فوجی آپریشن کا آپشن ابھی حکومت کے پاس باقی ہے۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||