جنوبی وزیرستان میں اس ماہ کی سولہ تاریخ کو لاپتہ ہونے والے ان دو تحصیلداروں کی لاشیں برآمد کر لی گئیں ہیں جن کے بارے میں حال ہی میں حکومت کا کہنا تھا کہ انہیں القاعدہ اور طالبان کے ارکان کو پناہ دینے والے مشتبہ قبائلیوں نے یرغمال بنایا ہے۔
پشاور سے بی بی سی کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان افراد کے نام مطیع اللہ برکی اور میر نواز مروت ہیں۔ مطیع اللہ، بِرمل کی تحصیل میں تعینات تھے جو افغان سرحد کے قریب واقع ہے، جبکہ میر نواز وانا میں تھے۔
اطلاعات کے مطابق جس وقت وانا کے نواح میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو یہ دونوں اعظم ورسک اور کالوشا کے علاقے میں تھے۔ اور اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع موصول نہیں ہو سکی۔
اسی دوران مقامی ملیشیا کے بھی بارہ اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا جنہیں گزشتہ دنوں قبائلی جرگے کی مداخلت کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
رحیم اللہ کا کہنا تھا کہ پہلے تو سرکاری طور پر کہا گیا کہ یہ دونوں تحصیلدار کسی محفوظ مقام پر اور حکومت سے رابطے میں ہیں اور مناسب موقع پر ظاہر ہو جائیں گے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور گزشتہ شام ان کی لاشیں ملیں۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مبینہ شدت پسندوں کے کمانڈروں نیک محمد اور حاجی شریف نے کہا تھا کہ مذکورہ تحصیلدار ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔
ان کی ہلاکت کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں۔ بعض خبروں میں کہا گیا ہے کہ انہیں قتل کرکے ان کی لاشیں کالوشا میں ایک کنوئیں میں پھینک دی گئی تھیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو جس مکان میں رکھا گیا تھا اس پر آپریش کے دوران ہیلی کاپٹر نے بمباری کی اور دیگر افراد کے ساتھ یہ دونوں تحصیلدار بھی ہلاک ہوگئے۔
تاہم سرکاری طور پر کہا جا رہا ہے کہ انہیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔
ان ہلاکتوں کے محرکات کے بارے میں رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ بعض لوگ یہ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ غالباً ملیشیا کے اہلکاروں کو اس لئے چھوڑ دیا گیا کہ ان کا تعلق قبائلی علاقے سے تھا اور وہ پختوں تھے۔ تاہم اس خیال کو اس تقویت اس لئے نہیں ملتی کہ ہلاک ہونے والے تحصیلدار بھی پختوں تھے اور قرب و جوار کے علاقوں کے باشندے تھے۔
تاہم ممکن ہے کہ اسی علاقے میں تعینات رہنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو ان سے کچھ شکایات پیدا ہوگئی ہوں۔
رحیم اللہ کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کے بارے میں تفصیلات اتنی مبہم ہیں کہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔