BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Monday, 09 February, 2004, 16:54 GMT 21:54 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
اننچاس فلموں پر پابندی لگائی گئی
 

 
 
پابندی
پاکستان سنسر بورڈ نے یہ نہیں بتایا کہ ان فلموں کی نمائش پر پابندی کیوں لگائی گئی
آج لاہور ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ وفاقی سنسر بورڈ نے پچھلے دس سالوں میں بورڈ نے سنسر کے لیے پیش کی جانے والی دو ہزار پانچ سو تیئس فلموں میں سے اننچاس فلموں کو ملک میں نمائش کے لیےممنوع قرار دیا۔

یہ بات سنسر بورڈ نے آج ایک آئینی رٹ کے جواب میں بتائی جو سنہ انیس سو اٹھانوے میں لاہور کے ایک وکیل ایم ڈی طاہر نے عدالت عالیہ نے دائر کی تھی۔

اس رٹ درخواست میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور انیس سو اکیانوے کے شریعت ایکٹ کے برعکس ملک میں عریانی اور فحاشی ہے اورعورتیں پردہ کے بغیر گھومتی پھرتی ہیں۔

اس آئینی درخواست میں عدالت عالیہ سے درخواست کی گئی تھی کہ فلموں، ٹیلی وژن ڈراموں اور تشہیری مواد عورتوں کا دوپٹے کے بغیر آنا غیر اسلامی ہے اس لیے سنسر بورڈ کو عورتوں کی تشہیر روکنے کی ہدایت کی جائے اور عورتوں کے لیے پردہ لازمی قرار دیا جائے۔

اس آئینی درخواست میں وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، وفاقی سنسر بورڈ اور ٹیلی وژن کے ڈائریکٹر کو فریق بنایا گیا ہے۔

آج سنسر بورڈ او وفاقی حکومت نے اس کا جواب عدالت عالیہ میں پیش کیا جب کہ دوسرے فریق پہلے ہی جواب داخل کراچکے ہیں۔

احتجاج
پاکستان میں کچھ سیاسی گروہ فحاشی کو بہانہ بنا کر احتجاج کرتے ہیں

آج فلم سنسر بورڈ نے اپنے جواب میں کہا کہ بورڈ وفاقی حکومت کے دیے ہوئے سنسر کوڈ کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہا ہے اور جہاں تک چوراہوں پر فلموں کے پوسٹر لگائے جانے کا تعلق ہے تو وہ بورڈ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے بلکہ صوبائی حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔

وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں کسی طرح کی فحاشی کی اجازت نہیں دی جاتی اور اس ضمن میں ایک سخت سنسر کا نظام ہے جس کے تحت تمام ڈراموں، فلموں اور نجی کمپنیوں کے ڈراموں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

وفاقی حکومت کے مطابق ٹی وی کے مرکز میں ایک کمیٹی ہے جو سینئر افسروں پر مشتمل ہے جو تمام پروگراموں کا سنسر کوڈ کے مطابق جائزہ لیتی ہے اور ایک سند جاری کرتی ہے کہ اس پروگرام میں کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔

وفاقی حکومت نے عدالت عالیہ سے کہا ہے کہ یہ درست نہیں ہے کہ ٹی وی ڈرامے جرائم کی شرح میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں کیونکہ ٹی وی کی پالیسی ہے کہ جرائم دکھانے والے ڈرامے جرم اورمجرم کو شاندار بنا کر پیش نہ کریں بلکہ یہ دکھائیں کہ جرم کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا اور قانون بالادست ہوتا ہے اورمجرم کو ہمیشہ سزا ملتی ہے۔

fuhsy
فحاشی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے، اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے

سنسر بورڈ اور وفاقی حکومت نے عدالت عالیہ سے درخواست کی ہے کہ یہ درخواست قانون کے خلاف ہے اس لیے اسے مسترد کیا جائے۔

درخواست گزار وکیل ایم ڈی طاہر نے کہا کہ وہ ایک ہفتہ میں اپنا جواب دائر کریں گے اس کے بعد اس درخواست کی اگلی سماعت کا فیصلہ ہوگا۔

 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد