|
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
وانا آپریشن: وزارت داخلہ اور فوجی بیان میں تضاد
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں گزشتہ دنوں فوجی کارروائی کے دوران صورتحال جتنی مبہم رہی اتنی اس کے خاتمے کے کئی روز بعد بھی ہے۔ کئی باتیں ایسی ہیں جن پر مختلف وزراء اور سرکاری اہلکاروں نے الگ الگ بیانات جاری کئے جس نے صورتحال کو واضح کرنے کی بجائے مزید مبہم کر دیا۔ حکام کے بیانات میں سب سے بڑا تضاد مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے غیرملکی عسکریت پسندوں کی گرفتاری سے متعلق ہے۔ فوجی کارروائی کے گزشتہ جمعرات کی صبح آغاز سے لے کر اس تقریباً نو گھنٹے تک جاری رہنے والی مہم کے دوران اور اختتام تک مسلح افواج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ میجر جنرل شوکت سلطان تمام ذرائع ابلاغ پر اعلان کرتے رہے کہ ان کے ہاتھ کوئی غیرملکی نہیں آیا ہے۔ انہوں نے صرف پچیس کے قریب مقامی افراد کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لینے کی تصدیق کی۔ اس پر ہم جیسے صحافیوں کو یقین ہوا کہ کوئی غیرملکی گرفت میں نہیں آیا لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اب وفاقی وزیر داخلہ سید فیصل صالح حیات کا ایک بیان سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وانا کارروائی میں بارہ غیرملکی گرفتار ہوئے ہیں۔ انہیں مزید کہتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان گرفتار افراد کی قومیت کا تعین کرنے میں فی الحال دقت پیش آرہی ہے۔ اب اصل صورتحال ہے کیا ایک عام شخص تو درکنار صحافی کے لئے فیصلہ کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ کون سچ کہہ رہا ہے اور کون نہیں؟ کس کی بات تسلیم کریں اور کس کی نہیں؟ جنوبی وزیرستان میں گزشتہ اکتوبر انگور اڈہ کے قریب کی جانے والی فوجی کارروائی کے بارے میں بھی صورتحال مکمل طور پر واضح نہیں ہوئی تھی کہ یہ مزید ابہام سامنے آیا ہے۔ اس کارروائی میں حکام نے آٹھ غیرملکیوں کے ہلاک اور اٹھارہ کی گرفتاری کی خبر کی تصدیق کی تھی۔ ان تین مہینوں میں اب تک واضح نہیں اور نہ کسی سرکاری اہلکار نے وضاحت کرنے کی زحمت کی کہ یہ چھبیس افراد کون تھے، ان کی شہریت کیا تھی اور القاعدہ کے ساتھ ان کے کیسے روابط تھے؟ تقریباً دو ماہ بعد ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی نے خبر دی کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک چینی اسلامی عسکریت پسند حسن معصوم اس کارروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔ حسن نے خیال ہے کہ ترکستان اسلامی تحریک نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے القاعدہ کے ساتھ مبینہ طور پر گہرے روابط تھے۔ چین کے ترک بولنے والے مسلمانوں کی اکثریت والے زنگجیانگ صوبے سے تعلق رکھنے والے اس شدت پسند کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد تصدیق ہوئی تھی۔ اس تازہ کارروائی میں یہ واحد ایسا مسئلہ نہیں تھا جس نے ابہام پیدا کیا۔ اسلام آباد، پشاور اور وانا میں حکام اس دوران ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یکسر مختلف فریکونسیز پر باتیں کر رہے تھے۔ اسلام آباد میں کارروائی کے خاتمے پر بھی رات گئے تک کہا جاتا رہا کہ یہ مہم جاری ہے۔ اسلام آباد میں اس کارروائی کو غیرملکی ’دہشت گردوں’ کے خلاف جبکہ پشاور اور وانا میں ان مقامی قبائل کے خلاف قرار دیا جا رہا تھا جو غیرملکیوں کو پناہ دیتے رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ آیا یہ دانستہ طور پر رکھا جانے والا ابہام تھا یا نہیں۔ بہرحال کارروائی کے دوسرے روز حکام کافی محتاط نظر آنے لگے اور ذرائع ابلاغ کو اس آسانی سے میسر نہیں تھے جس طرح پہلے روز۔ آخر یہ کارروائی کن معلومات کی بنیاد پر کی گئی تھی؟ کیا مخبری ہوئی اور کیا مذاکرات کو مزید وقت دینے سے اس صورتحال سے بچا نہیں جاسکتا تھا؟ ماضی کے برعکس اس تازہ کارروائی سے متعلق سوالات زیادہ پیدا ہوئے ہیں اور جواب کم۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||