|
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
جنرل مشرف وردی اتارنے پر راضی
جنرل پرویز مشرف نے قوم سے اپنے خطاب میں تصدیق کی ہے کہ وہ آنئدہ سال دسمبر تک اپنے فوجی عہدے سے مستعفی ہوجائیں گے۔ صدر مشرف نے کہا کہ وہ تاریخ ساز لمحے میں قوم سے مخاطب ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ قوم کو خوش خبری دینا چاہتے ہیں کہ ایل ایف کے تنازعہ کو حل کرنے کا سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے اس سمجھوتہ کو تاریخی فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے جمہوریت اور عوام کی فتح ہوئی ہے۔ اس سے قبل وزیر اطلاعات شیخ رشید نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت اور مجلس عمل کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت جنرل مشرف آئندہ سال کے آخر تک آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور متحدہ مجلس عمل کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے دوسرے اہم نکات یہ ہیں: جنرل مشرف کو بطور صدر تیس دن کے اندر پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں سے اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا جو صرف جاری مدت کے لئے ہوگا۔ یہ طریقۂ کار صرف جاری مدت کے لئے صدر کے انتخاب کا متبادل ہوگا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی سابقہ عمر برقرار رکھی جائے گی۔ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیارات اگرچہ صدر کے پاس رہیں گے تاہم ایسا کرنے کی صورت میں انہیں پندرہ دن کے اندر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجنا ہوگا جس کا فیصلہ سپریم کورٹ تیس دن کے اندر کرے گی اور یہ فیصلہ حتمی اور نافذالعمل ہوگا۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کو آئین کا حصہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کے لئے پارلیمان سے قانون کی منظوری لی جائے گی۔ آئینی ترامیم کی منظوری دو تہائی کی اکثریت سے ہی لی جائے گی۔ اور حکومت اور ایم ایم اے مشترکہ آئینی بل قومی اسمبلی میں پیش کرے گی اور یکم جنوری دو ہزار چار سے پہلے اسے منظور کرانے کے دونوں فریق پابند ہوں گے۔ صدر مملکت افواج پاکستان کے سربراہوں کا تقرر کرے گا لیکن وزیراعظم کی مشاورت سے۔ تاہم ان کے تقرر کا حق صدر کے پاس رہے گا۔ اس سمجھوتہ کے تحت جنرل مشرف کے پیدا کردہ مقامی حکومتوں کے نۓ نظام کو آئین کے شیڈول چھ کے تحت مزید چھ سال تک تحفظ رہے گا اور دو انتخابات ہوں گے۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||