http://www.bbc.com/urdu/

’میں اپنی بیٹی کا قاتل ہوں‘

ضلع خانیوال میں دس نومبر کو پراسرار حالات میں ہلاک ہونے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی افشین مسرت کے والد نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق انہوں نے پولیس کے سامنے اقرار کیا ہے کہ انہوں نے افشین کو اس کے دوپٹے سے گلا گھونٹ کر مارا تھا اور ان کے ساتھ اس جرم میں کوئی دوسرا شریک نہیں تھا۔

پولیس ان کے اقراری بیان پر یقین کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل وہ تحریری بیان میں کہہ چکے ہیں کہ افشین کی موت طبعی تھی اور وہ دمہ کی مریضہ تھی۔

پولیس افشین کے داد اللہ دتا سہو کی گرفتاری کے لیئے چھاپے مار رہی ہے جن پر شبہ ہے کہ وہ بھی افشین کے قتل میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ضلع خانیوال میں عدالت کے حکم پر کبیر والا کے بااثر خاندان سہو سے تعلق رکھنے والی لڑکی مسرت افشین کی لاش قبر کشائی کرکے نکالی گئی اور پوسٹ مارٹم کے ابتدائی مراحل میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس کی موت غیر طبعی تھی۔

ابتدائی تجزیے کی رپورٹ موصول ہونے پر ملتان پولیس نے افشین کے والد، مسرت حسین، دادا، اللہ دتّا اور دو نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا تھا۔

افشین مسرت نے ملتان کی بہاالدین ذکریا یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنسز میں گریجویشن مکمل کی تھی اور وہ اپنے خالہ زاد حسن مصطفیٰ کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی مگر والدین نے بارہ ستمبر سن دو ہزار تین کو اس کی شادی چچا زاد نعمان سے کردی جو پاک فضائیہ میں پائلٹ ہے۔

شادی کے چند ہی دن کے بعد افشین مسرت اپنے والدین کے گھر واپس آگئی اور اس نے سسرال واپس جانے سے انکار کردیا۔

جب والدین نے اصرار کیا تو افشین مسرت یکم نومبر کو اپنے خالہ زاد حسن مصطفیٰ کے ساتھ، جسے وہ اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتی تھی، راولپنڈی چلی گئی۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق افشین اور حسن نے راولپنڈی میں ایک عزیز کرنل عالمگیر کے گھر پناہ لی۔

کرنل عالمگیر کا کہنا ہے کہ وہ چھٹی لے کر کبیر والا پہنچے اور وہاں انہوں نے افشین کے والدین کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی بیٹی کی رائے کا احترام کریں۔

مگر افشین کے والد مسرت حسین، جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، کرنل عالمگیر کے گھر جاپہنچے اور اصرار کیا کہ افشین کو ان کے حوالے کیا جائے۔

اس اصرار پر کرنل عالمگیر نے افشین کو فوج کے اپنے ایک ساتھی اور افشین کے والد مسرت حسین کے قریبی رشتہ دار کرنل خالد سہو کے حوالے کردیا۔

آٹھ نومبر کو مسرت حسین اپنی بیٹی کو لے کر ملتان آگئے اور دس نومبر کی شب افشین تھانہ گلگشت کی حدود میں واقع گلشن مہر کالونی کے اپنے گھر میں مردہ پائی گئی۔

دریں اثناء سنیچر کو انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں نے ملتان پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور افشین کے قتل کی مذمت کی۔

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی سزا بھی موت ہی ہونی چاہیئے۔