|
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
سرکاری وردی اور تعزیرات پاکستان
لاہور میں میجر جنرل کے ڈرائیور قیصر عباس اورکانسٹیبل نذیر ڈوگر کی ہاتھاپائی کے دوران پولیس کانسٹیبل کی وردی پھٹ گئی تھی۔ قانونی ماہرین کے مطابق سرکاری اہلکارکی وردی پھاڑنا اور سرکاری کام میں مداخلت کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانسٹیبل نذیر کے خلاف تو ایف آئی آر درج کرکے انہیں گرفتار کرگیا لیکن فوجی ڈرائیور کے خلاف کوئی مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟ کانسٹیبل نذیر ڈوگر یہ بیان دیتے ہیں کہ گالیاں تو ڈرائیور نے بھی دیں تھیں اور اس کے علاوہ اسی نے ان کا گریبان پکڑ کر کھینچا تانی کی۔ ڈرائیور بغیر وردی کے تھا جبکہ نذیر کی وردی کے دو بٹن ٹوٹ گئے۔
پولیس افسر جب فوجی حکام کے روبرو پیش ہونے گئے تو وہ یہ پھٹی ہوئی وردی بھی ساتھ لے گئے تھے۔انہوں نے یہ وردی فوجی افسران کو دکھائی بھی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کانسٹیبل نذیر ڈوگر کی یہ وردی تھانہ غالب مارکیٹ میں موجود ہے۔ تعزیرات پاکستان کے مطابق سرکاری اہکار کی وردی پھاڑنے کی دفعہ تین سو تریپن ہے جو ناقابل ضمانت ہے اور مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جاتا ہے۔ اس کی سزا دو سال تک ہو سکتی ہے۔اسی طرح شیشے سے کاغذ اتارے جانے سے روکا جانا ’کار سرکار‘ میں مداخلت ہے جو قابل ضمانت اور اس کی سزا تین ماہ تک قید ہو سکتی ہے۔ اس تنازعہ میں کانسٹیبل نذیر ڈوگر کے علاوہ ناکے پر کھڑے تین دیگر اہلکار بھی معطل ہیں۔ معطل ہونے والوں میں ناکے کے انچارج اسسٹنٹ سب انسپکٹر ثناءاللہ اور دو دیگر کانسٹیبل نور دین اور مقبول شامل ہیں۔ کانسٹیبل نذیر کا کہنا ہے کہ ان کی تو لڑائی ہوئی تھی لیکن معطل ہونے والے دیگر اہلکار تو دور کھڑے تھے کسی نے مداخلت تک نہیں کی تھی اور کانسٹیبل نور دین اور مقبول تو ناکے سے دور ایسے مقام پر کھڑے کیے گئے تھے جہاں سے وہ ناکہ توڑ کے بھاگنے والوں کو روک سکیں۔ اس کے باوجود ان کو معطل کیا گیا۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||