نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری، تفصیلات واضح نہیں

،تصویر کا ذریعہGetty
- مصنف, اطہر کاظمی
- عہدہ, بی بی سی اردو، لندن
لندن میں پاکستانی سفارت خانہ اور حکمراں جماعت مسلم لیگ کے ذرائع اُس ہپستال کا نام ظاہر نہیں کر رہے جس میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے دل کا آپریشن ہونے والا ہے۔
نواز شریف کی ’اوپن ہارٹ‘ سرجری کے بارے میں پاکستانی عوام کو آگاہ رکھنے کے لیے بھی نہ تو حکومت اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کوئی طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔
چند غیر ملکی ذرائع ابلاغ اس ضمن میں مرکزی لندن میں واقع ایک نجی ہپستال کا نام لے رہے ہیں لیکن اس بارے میں پاکستانی سفارت خانے اور مسلم لیگ (ن) کو مکمل خاموشی برتنے کی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔
حکومت نے تمام متعلقہ اداروں اور افراد کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وزیرِاعظم کا جس ہسپتال میں آپریشن ہو رہا ہے اس کی تفصیلات کو صیغۂ راز میں رکھا جائے۔
مسلم لیگ برطانیہ کے صدر زبیر گل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کی تفصیلات اس لیے نہیں بتائی جارہی ہیں کیونکہ بصورتِ دیگر خدشہ ہے کے میاں صاحب کے ہزاروں چاہنے والے ہسپتال کے باہر جمع ہو جائیں گے جس کے باعث دیگر مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ادھر وزیراعظم کے بھائی پنجاب کے وزیرِاعلی میاں شباز شریف اور شریف خاندان کے تمام افراد لندن پہنچ گئے ہیں۔
حکومتی ذرائع یہ بتانے سے بھی گریز کر رہے ہیں کہ آپریشن کے بعد میاں نواز شریف کتنا عرصہ لندن میں مقیم رہیں گے۔
ڈاکٹروں کے بقول دل کے بائی پاس کے بعد مریض کو مکمل صحت یاب ہونے میں تین ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے جبکہ پہلے چار سے چھ ہفتے انتہائی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سرکاری طور پر تاحال یہ نہیں بتایا گیا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری اور ان کی مکمل صحت یابی کے دوران امورِ حکومت کون چلائے گا؟
سابق وزیرِقانون اور آئینی امور کے ماہر ایس ایم ظفر کا اس حوالے سے بی بی سی اردو کے ریڈیو پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وزیراعظم کسی وجہ سے اپنے فرائض انجام نہ دے سکیں تو وہ اپنی ذمہ دارایاں کسی بھی وزیر کو تقویض کر سکتے ہیں۔







