متحدہ کے کارکن کی ہلاکت پر انکوائری کا حکم، اہلکار معطل

،تصویر کا ذریعہReuters
- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
پاکستان کی فوج کے سربراہ نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن آفتاب احمد پر دورانِ حراست مبینہ تشدد اور ہلاکت کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔ ادھر رینجرز کے سربراہ نے اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کر کے تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی ہے۔
ایم کیو ایم کے کارکن آفتاب احمد متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے رابطہ کار تھے، جو منگل کو جناح ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ آفتاب احمد کی ہلاکت رینجرز کے تشدد سے ہوئی ہے۔

بدھ کو آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ آفتاب احمد کے کیس میں حقائق جاننے کے لیے انکوائری کا حکم فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دیا اور ساتھ ہی اس مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی ہدایت دی۔
اس سے قبل رینجرز کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ تین سطری بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹر رینجرز سندھ بلال اکبر کے حکم پر آفتاب احمد کی موت کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، جس کی سربراہی رینجرز سیکٹر کمانڈر کریں گے۔
رینجرز کے اعلامیے میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ کمیٹی کتنے روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، صرف یہ کہا گیا ہے کہ کہ جلد از جلد تحقیقات مکمل کر کے حقائق سامنے لائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ رینجرز نے آفتاب احمد کو حراست میں لینے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 90 روز کا ریمانڈ لیا تھا۔ اُن پر ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
رینجرز کے اعلامیے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ واقعے میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے، تاہم ان کی تعداد اور عہدوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے آفتاب احمد کی ہلاکت کے خلاف بدھ کو یوم سوگ منایا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 15 ماہ کے دوران آفتاب سمیت 11 افراد پولیس اور رینجرز کی حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
گذشتہ سال انجمن نوجوان اسلام کے سربراہ طارق محبوب بھی رینجرز کی حراست کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ وہ بھی رینجرز کے 90 روزہ ریمانڈ پر تھے تاہم حکام کا کہنا تھا کہ وہ جیل میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت رینجرز کو گذشتہ دو سالوں سے مشتبہ افراد کو 90 روز تحویل میں رکھنے کے اختیارات دیے گئے تھے۔







