’سلیوٹ کرنا سکھایا، مجرموں سے نمٹنا نہیں‘

- مصنف, سید انور شاہ
- عہدہ, سوات
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں خواتین محکمہ پولیس کا حصہ تو ہیں تاہم صوبے کے دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع میں ان کی سپیشل پولیس فورس کی تعداد نہ صرف نہایت کم ہے بلکہ ان میں سے اکثریت اسلحہ چلانے سے بھی ناواقف ہیں۔
سوات میں سپیشل پولیس فورس کی لیڈی کانسٹیبل، خاتون بی بی کا تعلق شورش سے متاثرہ گاؤں منگلتان سے ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے معاشرے سے جرائم کے خاتمے اور صنف نازک کے تحفظ کے عزم کے ساتھ پولیس فورس میں شمولیت حاصل کی ہے لیکن اس مقصد کے لیے نہ تو ہمیں کوئی تربیت دی گئی ہے اور نہ اسلحے کا استعمال سکھایاگیا ہے جس کی وجہ سے ہم ان صلاحیتوں سے محروم ہے جو ایک پولیس اہلکار کے پاس ہونی چاہییں۔‘
خاتون پولیس اہلکار نے بتایا کہ جب ملزمان کی گرفتاری کے لیے کسی مکان کے اندر جانا پڑے ہے تو انھیں ڈر رہتا ہے کہ مقابلے کے دوران کہیں وہ زخمی نہ ہو جائیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں ’صرف افسر کو سلیوٹ کرنا سکھایا گیا جبکہ اپنے دفاع اور مجرموں سے نمٹنے کے لیے تربیت نہیں دی گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں نہ صرف وہ اپنی دفاع کی صلاحیت سے محروم ہیں بلکہ اسلحے سے لیس مجرموں کے سامنے بے بس بھی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوات میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد 51 ہے جن میں سے 35 سپیشل فورس کا حصہ ہیں۔

،تصویر کا ذریعہbbc
سوات اور شانگلہ کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اگر چہ سکولوں و دیگر تعلیمی اداروں کے چوکیداروں اور بعض جگہوں پر اساتذہ کو بھی اسلحہ چلانے کی تربیت دی ہے لیکن عوام کی حفاظت پر مامور خواتین پولیس اہلکاروں کو کوئی تربیت بھی نہیں دی گئی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
شانگلہ کی سپیشل فورس کے انچارج روشن علی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فورس پولیس کی تعیناتی مستقل بنیادوں پر نہیں ہے اس لیے اس میں شامل خواتین پولیس اہلکاروں کو ٹریننگ نہیں دی جاتی۔
پولیس آرڈر 2002 کے مطابق کسی بھی گھر پر چھاپے میں لیڈیز پولیس کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود صوبے بھر میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد 440 ہے جو خواتین کی آبادی کے لحاظ سے نہایت کم ہے۔
سوات کےضلعی کونسلر بیگم شہاب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پشاور اور ایبٹ آباد میں خواتین پولیس سٹیشن قائم کیے گئے ہیں اس طرح سوات میں بھی خواتین پولیس سٹیشن بنایاجائے اور لیڈیز کانسٹیبلز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔







