’مجوزہ سائبر کرائم بل شہری آزادی پر بدترین پابندی‘

پروٹیکشن آف سائبر کرائم بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کر دیا ہے جس کے بعد اب اسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کیا جائے گا

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنپروٹیکشن آف سائبر کرائم بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کر دیا ہے جس کے بعد اب اسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کیا جائے گا
    • مصنف, ارم عباسی
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ عوامی سماعت میں سائبر کرائم کے بارے میں حکومتی بل کے مسودے کو شہریوں کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی آزادی کے خلاف قرار دیا گیا ہے

حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے پروٹیکشن آف سائبر کرائم بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے منظور کر دیا ہے جس کے بعد اب اسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کیا جائے گا۔

<link type="page"><caption> سائبر جرائم کے مجوزہ قوانین پر ابہام</caption><url href="http://www.bbc.com/urdu/science/2015/02/150227_cyber_law_pak_hk.shtml" platform="highweb"/></link>

<link type="page"><caption> ’الیکٹرانک کرائم بل ایک بھیانک قانون ثابت ہو گا‘</caption><url href="http://www.bbc.com/urdu/science/2015/04/150416_electronic_crime_bill_reservations_zs.shtml" platform="highweb"/></link>

منگل کو پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمینٹری سرویز میں منعقدہ اس عوامی سماعت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی، قومی اسمبلی کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق قائمہ کمیٹی کے اراکین کے علاوہ انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنےوالے کارکن اور آئی ٹی انڈسٹری کے افراد بھی شامل تھے۔

سینیٹ میں حزب اختلاف کے رہنما اعتزاز احسن نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی بل مبہم ہے۔ یہ نہیں سمجھ آتا کہ عدالت کا کیا اختیار ہے اور تحقیقاتی اہلکاروں کے پاس کیا اختیارات ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملزم کے کمپیوٹر یا انٹرٹیٹ ڈیوائسز سے معلومات جمع کرنے کا اختیار کہیں عدالت کو دیا جا رہا ہے تو کہیں تحقیقاتی افسر کو۔ اس لیے مجھے اس بل میں خامیاں نظر آرہی ہیں۔‘

اعتزاز احسن نے انٹرنیٹ ریگولیشن کے سلسلے میں کہا کہ یہ بل شہریوں کے مقابلے میں ریاست کو زیادہ مضبوط کر رہا ہے جبکہ شہریوں کی انٹرنیٹ استعمال کرنے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا: ’انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اختیارات میں اضافہ تو کیا جا رہا ہے مگر اگر اس قانون سازی کے نتیجے میں انھیں اگر استثنیٰ مل جاتا ہے تو یہ مجوزہ سائبر کرائم بل کی روح کے منافی ہے۔‘

بل کی شق 34 کے تحت پا کستان ٹیلی کمیونکیشن اٹھارتی (پی ٹی اے) کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ جو مواد اسے غیر مناسب لگے وہ اس کو پاکستانی صارفین کے انٹرنیٹ سے ہٹا سکتی ہے۔

انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’بولو بھی‘ کی فریحہ عزیز اسے شہری آزادی پر پابندی لگانے کی بدترین کوشش کہتی ہیں۔

اس سلسلے میں ان کا کہنا تھا: ’پی ٹی اے ٹیلی کام سیکٹر کو ریگولیٹ کرنے کا ادارہ ہے نہ کہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر مواد سے متعلق فیصلہ کرے۔‘

اس حکومتی بل کی شق 18 کے تحت کسی بھی شحص کی عزت نفس کو نقصان پہنچانے والے یا انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والے کو تین برس قید کی سزا ہو گی۔

اس سلسلے میں ایک آئی ٹی کمپنی کے سربراہ وہاج علی نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرتے ہوئے کہا: ’بظاہر لگتا ہے کہ حکومت اس بل کے ذریعے سوشل میڈیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔ اس سے شہریوں کا فیس بک یا ٹوئٹر پر اپنی مرضی سے مواد شیئر کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔‘

انٹرٹیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنوں کی جانب سے احتجاج کے بعد حکومت نے عوامی سماعت کا سلسلہ شروع کیا ہے

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنانٹرٹیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنوں کی جانب سے احتجاج کے بعد حکومت نے عوامی سماعت کا سلسلہ شروع کیا ہے

بل کے مطابق سپمینگ (کسی کو بغیر اجازت ٹیکسٹ میسج یا انٹرنیٹ کے ذریعے پیغام بھیجنا) کرنے والے کو تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے۔

اس سلسلے میں وہاج علی نے کہا: ’اگر کوئی اشتہار ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھیجتا ہے تو اسے بھی سزا ہو سکتی ہے جو غیر ضروری ہے۔ ہم نے حکومت سے کہا آپ اس پر قید کی سزا رکھنے کے بجائے جرمانہ رکھیں، مگر حکومت نے مشاورت کے بعد بھی اسے تبدیل نہیں کیا۔‘

خیال رہے کہ انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنوں کی جانب سے احتجاج کے بعد حکومت نے اس معاملے پر عوامی سماعت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔