کیا معصوم ذہنوں کے زخم کبھی بھر سکیں گے؟

،تصویر کا ذریعہAP

    • مصنف, حمیرا کنول
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پشاور کے سانحے نے پاکستانی معاشرے کی روح اور جسم پر جو گہرے زخم لگائے ہیں ان کا جلد مندمل ہونا ممکن نہیں ہے۔

سانحے کو ایک ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ذہنوں میں کلبلانے والے تکلیف دہ سوالات ذرائع ابلاغ اور نجی محفلوں میں پوری شدت سے گونج رہے ہیں۔

’آپ کیا کہیں گی آپ کا بیٹا چلا گیا؟‘ ’بھائی آپ کو یاد تو آتا ہوگا؟‘ ’قاتلوں کو کیا سزا دی جائے، آپ کا کیا پیغام ہے؟‘

یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستانی میڈیا کی ہر دوسری رپورٹ اور پروگرام میں پشاور سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے کیے جارہے ہیں۔

لیکن کیا انسداد دہشت گردی پلان کی تیاری میں مصروف حکومت اور پاکستانی معاشرہ دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہونے والے خاندانوں خصوصاً بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی بحالی کی اہمیت کا بھی احساس رکھتا ہے؟ ان بچوں کے نفسیاتی کرب کا بھی حکمرانوں اور معاشرے کو کسی طرح کا احساس ہے جن کے ہم جماعتوں کو ان کے سامنے ہلاک کر دیا گیا اور خون اور لاشوں کے درمیان ان کی جان معجزانہ طور پر بچ گئی۔ زخمی ہونے والے بچوں کے زخم تو وقت کے ساتھ بھر جائیں گے لیکن ننھے ذہنوں پر لگنے والے زخموں کا کیا ہوگا؟ یہ زخم ان کی شحصیت اور ائندہ زندگی پر کیسے اثر انداز ہوں گے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد طاہر خلیلی بتاتے ہیں کہ قدرتی آفات کی نسبت انسانی اقدامات کے نتیجے میں پیش آنے والے حادثات کا انسانی ذہن اور صحت پر مختلف انداز میں اثر ہوتا ہے اور اس کے نفسیاتی مسائل زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔

’ایک دہائی سے زائد عرصے سے ملک میں منصوبہ بندی کے تحت رونما ہونے والے تشدد کے بڑے اثرات ہوئے ہیں، ملک کے بڑے شہروں میں تو ان سانحات کے نتیجے میں صدمے سے دوچار ہونے والوں کی بحالی کے لیے وارڈ بھی ہیں اور ڈاکٹر بھی لیکن ان کی تعداد ناکافی ہے۔‘

شعبۂ تعلیم سے منسلک ماہر نفسیات ڈاکٹر ہما ظفر کہتی ہیں کہ دہشت گردی کے سابقہ واقعات میں متاثر ہونے والے بچوں کی بحالی اور کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے اور بدقسمتی سے اب تک دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کسی قسم کی پیشگی تیاری نہیں کی گئی۔

لیکن متاثرہ بچوں کی بحالی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ ایسے میں تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کے علاوہ مزید کس قسم کی معاونت درکار ہوگی؟

ڈاکٹر ہما ظفر کے مطابق تعلیمی اداروں کےتمام سٹاف کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور خطرے کی صورت میں حفاظتی اقدامات کے لیے مشق کے ساتھ ساتھ نصاب میں بھی ردوبدل کریں، اور تعلیمی نصاب کے اندر اس قسم کا مواد شامل کریں جو بچوں کو دہشت گردوں کے حملوں سے بچاؤ سے آگاہ کرے۔ ان کے خیال میں سکولوں کی سطح پر دہشت گردی سے متاثرہ بچوں کی بحالی کے لیے خصوصی سٹاف مقرر کیا جائے۔

اسی نکتے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر خلیلی نے کہا کہ دہشت گردی ہمارا قومی مسئلہ ہے جو پیچیدہ بھی ہے لیکن تیاری اس لحاظ سے نہیں ہے:

’اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے سکولوں میں بچوں کے لیے مختلف مشقوں کے علاوہ چند خصوصی اور اضافی کورس بھی کروائے جانے ضروری ہیں۔‘

’ہمسایہ ممالک میں بچوں کو تربیت دی جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ ماہرین نفسیات کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی حادثاتی صورت میں ’نفسیاتی فرسٹ ایڈ ‘ فراہم کرتے ہیں‘

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن’ہمسایہ ممالک میں بچوں کو تربیت دی جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ ماہرین نفسیات کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی حادثاتی صورت میں ’نفسیاتی فرسٹ ایڈ ‘ فراہم کرتے ہیں‘

وہ بتاتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک میں بچوں کو تربیت دی جاتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ماہرین نفسیات کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی حادثاتی صورت میں ’نفسیاتی فرسٹ ایڈ ‘ فراہم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں عام ڈاکٹروں کو بھی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے، نفسیاتی علاج کے لیے الگ نرسوں، سوشل ورکروں اور این جی اوز کے نمائندوں پر مشتمل ٹیمیں بھی بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر طاہر خلیلی کے مطابق آگہی اور معلومات فراہم کرنے کے لیے میڈیا کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا تاہم ان کا خیال ہے کہ پاکستانی میڈیا کے نمائندوں کو بھی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

’حالات سے آگاہی ضروری ہے تاکہ لوگ اس کے لیے تیار رہیں، لیکن آپ بار بار اگر خون دکھائیں گے، اندوہناک واقعات کے بعد آپ متاثرین سے بار بار پوچھیں کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں درست نہیں، انھیں غم اور صدمے کی کیفیت سے نکلنے کا موقع دیں۔‘

ڈاکٹر ہما ظفر کا کہنا ہے: ’منفی خبروں کو بار بار نشر نہ کیا جائے، کیونکہ جب آپ بار بار صدماتی سین دکھائیں گے تو لوگ بار بار اسی کیفیت سے گزریں گے۔‘

لیکن میڈیا اپنے کردار پر اٹھنے والے سوالات پر کیا موقف رکھتا ہے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے منسلک سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا تربیت کے فقدان کی وجہ سے اکثر ایسی غلطیاں کرتا ہے جو نہ صرف اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں بلکہ ناظرین کے لیے بھی بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے بعد سے عالمی جنگ کے آغاز سے اب تک پاکستان کا کوئی ایسا چینل نہیں جس نے باضابطہ طور پر اپنے نمائندوں کو یہ تربیت دی ہو کہ اس نے جنگ کے حالات میں رپورٹ کیسے کرنی ہے اور انپی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں۔

’پاکستانی میڈیا کو تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے، آپ ایسے مقامات سے جب رپورٹ کرتے ہیں تو کیسے کرنا چاہیے، الفاظ کا چناؤ کیا ہونا چاہیے، آپ کے چہرے کے تاثرات کیسے ہونے چاہییں۔ بعض اوقات زبان سے ایسے جملے نکل جاتے ہیں جو بہت زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔‘

کیپیٹل ٹی وی کنٹرولر نیوز اور سینیئر صحافی ناصر ملک یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ میڈیا کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ خبر نشر کرتا ہے تاہم وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں میڈیا کا کردار مثبت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پشاور سکول پر حملے کی فوٹیج ہمارے پاس موجود تھی لیکن وہ ہم نے نہیں چلائی کیونکہ باہر موجود دہشت گردوں کو پتہ لگ جاتا ہے کہ فورسز کہاں کہاں موجود ہیں۔ دوسرے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کے چہرے نہیں دکھانے، اگر میں ان کی تصویریں بار بار چلاؤں گا تو وہ بچے جنھوں نے انھیں دیکھا تھا ان کی ذہنی حالت مزید خراب ہوگی۔‘

لیکن کیا وجہ ہے کہ صحافتی ذمہ داریاں اداکرنے کے لیے پاکستانی میڈیا ایک متفقہ ضابطہ اخلاق مرتب نہیں کر سکا؟

ناصر ملک کہتے ہیں کہ میڈیا اب تک اپنے اپنے ضابطہ اخلاق پر چلتا ہے یعنی اس نے اپنی حدیں خود مقرر کر رکھی ہیں۔

’میں تسلیم کرتاہوں کہ مجموعی طور پر ایک ضابطہ اخلاق بہت ضروری ہے لیکن اس کی کمی ہے، سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ اس لائن سے آگے ہم نہیں جا سکتے، واقعہ ہوگیا لیکن اب بات یہ ہو رہی ہے کہ ان کے ساتھ لڑنا کیسے ہے۔‘

پاکستانی حکومت جلد ہی انسداد دہشت گردی کے لیے ایکشن پلان پیش کرنے والی ہے۔ وہ کیا ہوگا اور اس میں بچوں، عوام اور میڈیا کے لیے کیا تجاویز اور مدد ہوگی، یہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔

لیکن ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ اس پیچیدہ صورتِ حال میں ہمارا خاندانی نظام ہی شاید صدماتی کیفیت سے نکالنے کے لیے مدد دے سکتا ہے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسے اپنا قومی مسئلہ تسلیم کریں۔