کراچی: ’باجوڑ سے تعلق رکھنے والی 26 نوعمر لڑکیاں برآمد‘

پولیس کے مطابق بازیاب کرائی گئی نو عمر لڑکیوں کی عمریں آٹھ سے دس سال کے درمیان ہیں

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشنپولیس کے مطابق بازیاب کرائی گئی نو عمر لڑکیوں کی عمریں آٹھ سے دس سال کے درمیان ہیں

صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں پولیس نے لیاقت آباد کے علاقے میں ایک مکان پر چھاپہ مار کر 26 نوعمر لڑکیوں کو بازیاب کرایا ہے جن کا تعلق قبائلی علاقے باجوڑ سے بتایا جاتا ہے۔

پولیس کے مطابق لیاقت آباد کے علاقے سے منگل کی شب بازیاب کرائی گئی لڑکیوں کی عمریں آٹھ سے دس سال کے درمیان ہیں اور وہ اردو نہیں بول سکتیں۔

پولیس کے مطابق چھاپے میں دو خواتین اور ایک مرد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔

کراچی پولیس کے ایس ایس پی نعمان صدیقی نے بی بی سی اردو کے حسن کاظمی کو بتایا کہ ان بچیوں کو اب ضلع وسطی میں ان کے دفتر منتقل کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ باجوڑ میں ان بچیوں کے والدین سے رابطہ کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں تاکہ وہ آ کر انھیں واپس لے جائیں۔

نعمان صدیقی کے مطابق ان بچیوں کوگذشتہ چند برس کے دوران قرآن حفظ کروانے کے لیے باجوڑ سے کراچی لایا گیا تھا اور ان کی معلمہ اپنے ایک قرض دار کے قرض واپس نہ کرنے پر انھیں اس کے پاس چھوڑ گئی تاکہ وہ ان کے کھانے پینے کا خرچ اٹھائے۔

اس سے قبل منگل کی شب جائے وقوع کا دورہ کرنے والے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی نے بی بی سی اردو کے احمد رضا سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حراست میں لی گئی عورت کے بقول اس نے ایک مدرسے کی استانی سے چار لاکھ روپے قرض لیا تھا اور واپس نہ کرسکنے کے نتیجے میں اس استانی نے یہ بچیاں اس عورت کے مکان پر بھجوا دیں کہ ان کی کفالت کرو۔

’مجھے حراست میں لی گئی عورت نے بتایا ہے کہ ان بچیوں کو مدرسے کی استانی نے اس مکان میں رکھوایا ہے۔‘

سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور رکنِ صوبائی اسمبلی نے مزید بتایا کہ بچیاں بہت گھبرائی ہوئی تھیں اور رو رہی تھیں۔ ’ایس ایچ او کو کہا ہے کہ ان تمام بچیوں کی معلومات لیں۔‘

رؤف صدیقی نے یہ بھی کہا: ’یہ قرض کے لین دین کا قصہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جو عورت ان بچیوں کے ساتھ اس مکان پر آئی ہوئی ہے وہ پشتو، اردو اور پنجابی جانتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایس ایچ او نے مدرسے کی مالکن کو بھی طلب کیا ہے۔

’مدرسے کے بارے میں معلومات زیادہ نہیں ہیں کیونکہ یہ مدرسہ کوئی مقامی مدرسہ نہیں ہے۔‘

مکان کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے رؤف صدیقی نے کہا کہ ’ایک چھوٹا کمرا ہے جس میں تین چارپائیاں پڑی ہیں۔ اس کمرے کے ساتھ ایک صحن سا ہے جہاں گرِل لگی ہوئی ہے۔ اسی صحن میں یہ بچیاں ہیں۔‘

نجی ٹی وی پر چلنے والی فوٹیج کے مطابق ان بچیوں سے کئی سوال پوچھے گئے لیکن اردو نہ آنے کے باعث انھوں نے جواب نہیں دیا۔

ایک شخص نے رؤف صدیقی کے کہنے پر ایک بچی سے پشتو میں پوچھا کہ وہ کب کراچی آئی تو اس بچی نے کہا کہ تین سال قبل کراچی آئی تھی۔