اگر نواز شریف صدارت کا انتخاب کرتے تو؟

معلوم نہیں نواز شریف نے ان دو عہدوں میں سے ایک کے انتخاب پر کتنا سوچ بچار کیا

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنمعلوم نہیں نواز شریف نے ان دو عہدوں میں سے ایک کے انتخاب پر کتنا سوچ بچار کیا
    • مصنف, ہارون رشید
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

میاں محمد نواز شریف تیسری وزارت عظمیٰ کے دور میں ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران کا شکار ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ان پر ترس کھائیں یا اسے مکافاتِ عمل سمجھ کر چپ ہو جائیں لیکن ان کے پاس ایک راستہ تھا جو انہیں اس تازہ بحران سے شاید بچا سکتا تھا۔

وہ راستہ تھا ایوان وزیر اعظم کی بجائے ایوان صدارت کے انتخاب کا۔

پیپلز پارٹی کے سابق صدر آصف علی زرداری اس کی بہترین مثال لگنے لگے ہیں۔ کس طرح انھوں نے 2008 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد کئی سیاسی پنڈتوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے وزرات عظمیٰ کی بجائے صدارت کا انتخاب کیا۔ ابتدائی دنوں میں انھوں نے ایوان صدر کو تمام سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا تھا لیکن بعد میں عدالتی حکم پر سیاسی سرگرمیاں پس منظر میں کرتے رہے۔

ان کے بھی وزیر اعظم تبدیل ہوتے رہے لیکن وہ اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہے۔

لاہور میں نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان ملاقات میں معلوم نہیں اس ’آپشن‘ پر غور ہوا یا نہیں۔ شاید سیانی بلی کی طرح زرداری صاحب نے اصل گر بتانے سے گریز کیا جو نواز شریف کو اب کسی بےسروپا موبائل پیکیج کی طرح مہنگا پڑ رہا ہے۔ معلوم نہیں نواز شریف نے ان دو عہدوں میں سے ایک کے انتخاب پر کتنا سوچ بچار کیا تھا یا کیا بھی کہ نہیں۔

بعض لوگوں کے خیال میں اگر وہ وزیر اعظم بنے کی بجائے صدر بننے کو ترجیح دیتے تو حالات آج خاصے مختلف ہوسکتے تھے۔ ایوان صدر انھیں تناؤ سے پاک آرام و آسائش زیادہ وافر انداز میں پیش کر سکتا تھا۔ نہ روز کی بک بک نہ جھک جھک۔ سال میں ایک مرتبہ پارلیمان جانا پڑتا، اللہ اللہ خیر سلا۔

کابینہ اجلاسوں کی صدارت کی کوفت بھی نہ اٹھانی پڑتی۔ ویسے بھی کابینہ اجلاس اب کون سے باقاعدگی سے ہو رہے ہیں۔ لفٹ تو ویسے بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے لیکن مسلح افواجِ پاکستان کے براہ راست کمانڈر ان چیف کا عہدہ بھی مل جاتا۔ غیرملکی دورے اب بھی جی بھر کرتے ہیں لیکن صدارت میں چونکہ غالباً فراغت زیادہ ہوتی ہے تو دورے بھی زیادہ ہو سکتے تھے۔

غرض یہ کہ بھاگ دوڑ کم اور شاہانہ آرام زیادہ تھا، نقصانات کم اور فوائد زیادہ تھے۔ دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے مزے کرکرے ہونے کے بعد دوبارہ اسی کا انتخاب سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور آج کل کے سیاسی حالات دیکھ کر زیادہ بڑی غلطی لگ رہی ہے۔ تھوڑا صدارت کی ہانڈی بھی چکھ لیتے یا شاید ان کی یہ پانچ سالہ دور مکمل کرنے کے بعد صدارت پر نظر تھی؟

ایوان صدر کی بڑی اونچی آرائشی کھڑکیوں سے کبھی اگر وقت ملتا یا جی کرتا تو نیچے رعایا پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیا کرتے۔ ویسے ان کھڑکیوں میں کم ہی کوئی نظر آتا ہے۔ عمران خان ان پر بادشاہت کا الزام ویسے ہی غلط عائد کرتے ہیں۔ ایوان صدر میں موجوگی پر انھیں ایسا کچھ کرنے کا کوئی موقع شاید ہاتھ نہ آتا۔ بس کسی جماعتی تابعدار کو وزارت عظمیٰ کی کرسی عطا کر دیتے لیکن تمام باگیں اپنے ہاتھ میں رکھتے۔ وزیر اعظم کے عہدے کی بے وقت کا اندازہ پاکستانی تاریخ پر نظر ڈال کر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم تو 18 سے زیادہ لیکن صدر محض 12۔

آج اگر نواز شریف صدر اور کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو ایسا وزیر اعظم بڑی آسانی کے ساتھ کسی بھی دباؤ میں قربان، یا تبدیل، کیا جاسکتا تھا۔ ویسے عہدہ اب بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ممنون حسین صاحب کو شاید ہی کوئی اعتراض ہو۔