طالبان قیادت میں تبدیلیاں، سجنا کو تسلیم نہیں

،تصویر کا ذریعہAP
پاکستان میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک سینیئر رہنما کا کہنا ہے کہ طالبان گروہوں میں جنگ تو ختم ہو گئی ہے لیکن جنوبی وزیرستان کے کمانڈر خان سید سجنا نے اپنی عارضی معطلی کے حوالے سے امیر کا فیصلہ اب تک تسلیم نہیں کیا۔
بی بی سی پشتو سروس کے نامہ نگار طاہر خان کو طالبان قیادت میں شامل ایک رہنما نے بتایا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ نے جنوبی وزیرستان میں تحریک کے انتظامی امور دو ماہ کے لیے خالد حقانی کو سونپے ہیں۔
<link type="page"><caption> وزیرستان: طالبان طالبان سے لڑ پڑے، 20 ہلاک</caption><url href="http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/04/140410_waziristan_taliban_infighting_ra.shtml" platform="highweb"/></link>
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں طالبان گروہوں کی لڑائی ختم ہو چکی ہے مگر ان کے مابین موجود کشیدگی اور تناؤ کو ختم کرنےکی عارضی ذمہ داری کمانڈر عمر خراسانی کو سونپی گئی ہے جو پہلے ہی مہمند ایجنسی میں ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔
طالبان رہنما نے بتایا کہ علاقے میں گذشتہ چار روز سے کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے نہ تو نومنتخب طالبان کمانڈر اب تک باضابطہ طور پر کام کا آغاز کر سکے ہیں اور نہ ہی ان میں باہمی رابطے ممکن ہو پا ئے ہیں۔
لیکن دوسری جانب بہت سے طالبان رہنما اس بات پر بھی حیران ہیں کہ جب تحریک کے امیر نے کمانڈر خان سید سجنا کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے تو طالبان انتظامیہ اس کا رسمی اعلان اور معمول کے مطابق میڈیا کو کوئی تحریری پیغام ارسال کرنے سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔
طالبان رہنماؤں کے مطابق اب طالبان قیادت کسی علاقے میں کمانڈر کے چناؤ کے لیے مقامی افراد کے بجائے کسی دوسرے علاقے سے بھی اپنے نمائندوں کو نامزد کر دیتی ہے اور کمانڈر کا چناؤ علاقے سے تعلق کے بجائے صلاحیت اور اہلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ تحریک کا امیر شوری کے کسی فیصلے کو رد کرے۔
اس سے قبل طالبان شوری کے رکن اعظم طارق نے اپنے ایک بیان میں دعوی کیا تھا کہ یہ خبر درست نہیں کہ طالبان شوری کے اراکین خان سید سجنا کے حق میں ہیں یعنی جنوبی وزیرستان کی قیادت ان کے ہاتھ سے لینا نہیں چاہتے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہunknown
یاد رہے کہ مختلف خبروں کے مطابق گذشتہ ماہ خان سید سجنا اور شہریار محسود گروپوں کے مابین لڑائی میں 50 کے قریب افراد مارے گئے تھے۔ تاہم اس لڑائی کا دائرہ جب ٹانک اور وزیرستان کے دیگر علاقوں تک پھیلنے لگا تو تحریک طالبان پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کے بعض سینیئر کمانڈروں نے مداخلت کرتے ہوئے فریقین میں ایک ماہ کی جنگ بندی کرا دی تھی۔ لیکن بظاہر یہ کوششیں بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں اور فائر بندی کے باوجود دونوں گروپوں کی طرف سے خفیہ طور پر ایک دوسرے کے جنگجوؤں کو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ادھر طالبان کے مختلف دعوے بھی سامنے آتے رہے کہ ہلاکتیں اتنی نہیں ہوئیں جتنی مختلف ذرائع بتا رہے ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ یہ لڑائی طالبان کے درمیان نہیں ہو رہی بلکہ دو دیگر شدت پسند تنظیموں کے درمیان ہونے والی لڑائی کو ٹی ٹی پی کی لڑائی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان جھڑپوں میں اب تک تحریک طالبان کے بعض اہم کمانڈر بھی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں عصمت اللہ شاہین، امیر حمزہ اور کشید خان شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق خان سید سجنا کا تعلق ولی الرحمان اور شہریار گروپ کا تعلق حکیم اللہ محسود کے دھڑے سے بتایا جاتا ہے۔ دونوں گروپ محسود قبیلے سے بتائے جاتے ہیں۔ ان گروپوں کے مابین جنوبی وزیرستان کی امارت اور بعض دیگر امور پر بہت پہلے سے اختلافات چلے آرہے ہیں۔
تاہم حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمان کی زندگی میں یہ اختلافات زیادہ گہرے نہیں تھے لیکن ان دونوں کمانڈروں کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کے بعد اب یہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ان دونوں دھڑوں نے کراچی میں بھی ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔







