وزیرستان میں ہلاکتیں، مذہبی جماعتوں کی تشویش

،تصویر کا ذریعہAFP
پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں نے وزیر ستان میں حالیہ فوجی کارروائی پر جس میں اطلاعات کے مطابق طالبان کے اہم کمانڈروں سمیت چالیس غیر ملکی شدت پسند مارے گئے تھے تشویش ظاہر کی ہے۔
شمالی وزیر ستان کے علاقے میر علی میں ہونے والی اسی بمباری میں فوجی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ طالبان کے فدائیں سکواڈ کے سربراہ جو مبینہ طور پر خودکش بمباروں کو بھی تیار کرتے تھے ولی محمد محسود عرف طوفان بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔
عسکری ذرائع سے چلنے والی ان خبروں پر تشویش ظاہر کرنے والی جماعتوں کے سربراہوں میں جماعت اسلامی کے سربراہ سید منور حسن، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان اور جمیعت علمائے اسلام کے دوسرے دھڑے کے رہنما مولانا سمیع الحق وزیر ستان شامل ہیں۔
اس بارے میں تینوں جماعتوں کی طرف سے خصوصی طور پر بیانات جاری کیے گئے۔
مولانا سمیع الحق نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ طاقت کے استعمال کا رد عمل ہو سکتا ہے اور تشدد بڑھ سکتا ہے۔
اسی دوران ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں ہوئیں جن میں مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس پر خود کش حملے کے علاوہ، بنوں اور راولپنڈی کینٹ میں بم حملے بھی شامل تھے اور ان میں وزیرستان پر فضائی بمباری میں کہیں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں لیکن ان پر کسی مذہبی جماعت کے کسی رہنما کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا۔
واضح رہے کہ وزیرستان پر بمباری پر فوج کے محکمۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجواہ نے ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیرستان میں حملے مصدقہ خفیہ اطلاعات پر کیے گئے تھے۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ معصوم شہریوں کے جانی نقصان سے بچنے کے لیے ان اطلاعات کی متبادل ذرائع سے تصدیق کر لی گئی تھی۔



